کنویں میں کوئی جاندار گر کر مر جائے تو اسے پاک کیا جاتا ہے۔ کچھ پانی نکال کر، دعائیں پڑھ کر یا کلام الٰہی کی تلاوت کر کے اس کے پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔ گئے زمانوں میں یہ عمل بھی ایک پیشہ ہی سمجھا جاتا تھا۔ ہر گاؤں میں ایک نہ ایک بزرگ ایسے ہوا کرتے تھے جو کنویں پاک کیا کرتے تھے۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ہاسٹل میں میری ملاقات ایک دیرینہ دوست کے ضعیف والد سے ہوئی تھی۔ ان کی عمر اس وقت کتنے برس تھی یہ جاننے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے ان سے کچھ سوال کیے۔ میں نے ان سے تاریخ پیدائش پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ تاریخ تو یاد نہیں۔ سن پیدائش کے بارے سوال پر انہوں نے یہ جواب دیا کہ”میں رولیاں توں پہلے دا ہاں۔ رولے میری جوانی دے وچ پے گئے سن.” میں سمجھ گیا کہ تایا جی تقسیم ہند اور اس دوران کے غدر کی بات کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے گفتگو کو تقسیم کی لکیر کے ارد گرد گھمایا اور اس میں سے واقعات کشید کرنے کی کوشش کی۔ میں جانتا ہوں کہ یادوں کی پکار الفاظ کے تازیانے سے جنم لیتی ہے اور یہ کہ تقسیم کے زخموں سے اب خون نہیں رستا کیونکہ وہ زخم اپنی ذات میں آپ خون بن چکے ہیں۔۔۔۔۔۔
میں نے دریافت کیا کہ تقسیم کی مارا ماری اور فسادات سے کوئی یادداشت ایسی ہو جسے آپ قبر تک کی ساتھی سمجھتے ہوں تو اس کے جواب میں انہوں نے اپنے ایام شباب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے محلے میں ایک پندرہ سولہ برس کی ہندو لڑکی تھی جس کی چیخیں خون آلود بے چراغ شب کے آنگن سے سنائی دی تھیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ہندو لڑکی انہیں بلکل بھی پسند نہیں تھی لیکن بے حد خوبصورت تھی۔ افسوس اور ندامت کے جذبات میں لپٹ کر انہوں نے کہا کہ وہ اگر میرے ہاتھ لگ جاتی تو میں اسے کبھی ہاتھ بھی نہ لگاتا اور میرے ہوتے ہوئے گاؤں کے کسی لونڈے کی جرات نہیں تھی کہ اسے ہاتھ لگا سکتا لیکن اس سے پہلے کہ میں اس تک پہنچتا وہ کنویں تک پہنچ گئی۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر میں کچھ دیر کے لیے خاموش ہوا۔ وہی خاموشی جو تقسیم کے سکتے سے جڑی ہے اور جس نے ڈھاکہ کی گلیوں میں اپنی قبائیں اتار پھینکی تھیں۔ وہی سکوت جس کے تانے بانے نے اس قوم کے تن کو ڈھانپا نہیں ننگا کیا ہے۔۔۔۔۔ لیکن مجھے سکون اس وقت ملا جب گفتگو اپنے فیصلہ کن جملے تک پہنچی۔ میں نے ان سے کہا کہ تایا جی یہ بتائیں کہ پھر اس کنویں کو آپ نے پاک کیا؟ ان کا جواب دراصل ایک سوال کے لہجے میں لپٹ کر مجھ تک پہنچا
"عزتاں بچانڑ آلے وی کوئی پلیت ہوندے پترا؟”