خیبر پختونخوا، بنوں میں کیا ہوا؟ قوم ،ملک ، سلطنت آٹو پر

بنوں، خیبر پختونخوا میں کیا ہوا؟

گذشتہ شام افطاری کے وقت پورا پاکستان جب افطار میں مصروف تھا ، بنوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ، فائرنگ اور دھماکے آوازوں نے پورے شہر کو خوف میں مبتلا کر دیا ۔ بنوں کے بے بس شہری اپنے پیاروں کی میتیں اُٹھائے اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے ۔ ملبے میں لاشیں ڈھونڈ رہے تھے ۔ زخمیوں کی آہ وبُکا سن کر سمت کی شناخت کی جا رہی تھی اور ملبہ ہٹا کر لاشوں اور زخمیوں کا نکالا جا رہا تھا . جلے ہوئے جسم تھے ، کٹی پھٹی لاشیں تھیں جو اس المناک واقعے کی سنگینی بیان کر رہی تھیں۔

بنوں چھاؤنی پر حملہ

4 مارچ 2025 کو افطار کے وقت خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک بڑا دہشت گرد حملہ ہوا۔ دو خودکش بمباروں نے بارود سے بھری گاڑیاں فوجی چھاؤنی کی دیوار سے ٹکرا دیں، جس سے دیوار میں شگاف پڑ گیا۔ اس کے بعد مزید حملہ آوروں نے اندر گھس کر سیکیورٹی فورسز سے جھڑپ کی۔ اس حملے میں کم از کم 13 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہوئے۔ بنوں پولیس کے مطابق دھماکے چھاؤنی کے اندر ہوئے اور ان کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ قریبی گھروں اور مساجد کو شدید نقصان پہنچا، جس سے عام شہریوں کی اموات ہوئیں۔ چھاؤنی کے قریب واقع گاؤں کوٹ براڑہ کو زیادہ نقصان پہنچا، جہاں کئی مکانات منہدم ہو گئے۔ مسجد کی عمارت گرنے سے امام سمیت تین افراد جاں بحق ہو گئے۔

جیش فَرسَّان محمد

اس حملے کی ذمہ داری عسکریت پسند تنظیم جیش فَرسَّان محمد نے قبول کی ہے۔ یہ تنظیم پہلے افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف سرگرم تھی، لیکن غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اس نے پاکستان میں کارروائیاں شروع کر دیں۔ یہ تنظیم خطے میں کئی بڑے حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک ہے۔

بنوں مسلسل دہشت گردی کا نشانہ کیوں؟

بنوں میں فوجی تنصیبات پر کئی بار دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں، اور حالیہ برسوں میں ان حملوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے.

اکتوبر 2024: بنوں پولیس لائنز پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا، جس میں پانچوں حملہ آور مارے گئے، جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چار اہلکار بھی جاں بحق ہوئے۔

جولائی 2024: بنوں چھاؤنی پر دہشت گردوں کے حملے میں آٹھ سکیورٹی اہلکار شہید اور دس دہشت گرد ہلاک ہوئے۔

نومبر 2023: بنوں کے علاقے بکا خیل میں سکیورٹی فورسز پر خودکش حملے میں دو افراد جاں بحق اور سات زخمی ہوئے، جن میں تین سکیورٹی اہلکار شامل تھے۔ حملہ آور کی شناخت افغان شہری کے طور پر ہوئی، جس کا تعلق حافظ گل بہادر گروپ سے تھا۔

یہ واقعات بنوں میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے خطرے اور علاقائی سلامتی و استحکام پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اس تشدد کی لہر کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟

یہ حملہ ایک الگ تھلگ واقعہ نہیں، بلکہ خیبر پختونخوا، خاص طور پر بنوں جیسے علاقوں میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کا حصہ ہے۔ فوجی تنصیبات اور سیکیورٹی فورسز کو مسلسل نشانہ بنانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عسکریت پسند گروپ علاقے کو غیر مستحکم کرنے اور ریاست کی عملداری کو چیلنج کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔

جیش فَرسَّان محمد جیسی تنظیموں کی سرگرمیاں، جو تحریک طالبان پاکستان کے حافظ گل بہادر گروپ سے وابستہ ہیں، سرحد پار عسکریت پسندی کے پیچیدہ پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ان گروہوں کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔

سماجی اور معاشی طور پر، ان حملوں کے نتائج تباہ کن ہیں۔ جان و مال کے فوری نقصان کے علاوہ، خوف کا ماحول روزمرہ کی زندگی اور کاروبار کو مفلوج کر رہا ہے۔ مقامی معیشت متاثر ہوتی ہے، مارکیٹیں بند ہو جاتی ہیں، اور سرمایہ کاری رک جاتی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان سے بحران مزید گہرا ہو جاتا ہے، جبکہ مناسب طبی سہولیات جیسے برن سینٹرز اور جدید اسپتالوں کی کمی انسانی جانوں کے ضیاع کو بڑھا دیتی ہے۔

سیاسی طور پر، ان حملوں نے ریاست کی انسداد دہشت گردی حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ 20 سال سے جاری فوجی کارروائیوں کے باوجود دہشت گردی کا مستقل جاری رہنا انٹیلیجنس اور سیکیورٹی اقدامات میں موجود کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے۔ مقامی افراد کی مایوسی اور طویل عرصے سے جاری عسکری کارروائیوں کے باوجود مسئلے کا حل نہ نکلنے کا شکوہ، ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔

مسلسل دہشت گردی کے نتائج

بنوں میں جاری دہشت گردی نے شہریوں اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔آئی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مقامی باشندوں نے صورتحال پر شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی سرمایہ کار بھی بنوں میں کاروبار کرنے سے گھبرا رہے ہیں، جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔حملوں کے بعد سخت سیکیورٹی اقدامات جیسے چیک پوسٹس، تلاشی اور ناکے شہریوں کی نقل و حرکت محدود کر دیتے ہیں، جس سے روزمرہ کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ سیکیورٹی خدشات کے باعث کئی خاندان دوسرے شہروں میں منتقل ہونے پر مجبور ہیں۔

کیا فوجی آپریشن مسئلے کا حل ہے یا ایک نیا مسئلہ؟

ریاستی ردعمل کے حوالے سے ایک پولیس اہلکار نے خدشہ ظاہر کیا کہ ممکنہ فوجی آپریشن یا جوابی کارروائی سے علاقے میں مزید کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس سے مقامی آبادی کو نقل مکانی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔عوام کا کہنا ہے کہ پچھلے 25 سال سے جاری فوجی کارروائیوں کے باوجود دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ مقامی تاجر وں کے مطابق مسلسل دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے مقامی آبادی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے ،لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ چکا ہے . بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے اور معاشرتی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔بنوں جیسے حساس علاقوں میں دہشت گردی کے ایسے حملے ترقی اور استحکام میں بڑی رکاوٹ بنتے ہیں، اور طویل المدتی طور پر یہ عوام کے اعتماد اور خوشحالی پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔

دھماکوں کے بعد

بنوں کے شہری شکایت کرتے ہیں کہ مسلسل دہشت گرد حملوں کے باوجود علاقے میں مناسب صحت کی سہولیات موجود نہیں۔ کوئی برن سینٹر نہیں، جدید ایمبولینسز اور اسپتالوں کی کمی ہے۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ اگر دہشت گردی کو فوری طور پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں تو کم از کم صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کو بہتر کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟ شہریوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکام کی جانب سے مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا ہے، اس ملک کے بزرگوں نے قوم ،ملک ، سلطنت کو آٹو پرلگا کر چھوڑ دیا ہے ، پتہ نہیں کدھر جا رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے ؟ ؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے