وزارتوں کی بندر بانٹ

قدرت اللہ شہاب ایک بیوروکریٹ گزرے ہیں جنہوں نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ ایوب خان کی آمریت میں ان کے سیکریٹری رہے، ادیب آدمی تھے۔ پاکستان میں ادب نگری میں تصوف کا ترکہ ان کے ہاں سے ہی آیا۔ پھر ممتاز مفتی صاحب ہوں، اشفاق صاحب اور بانو آپا سب نے اس میں بدرجہ اتم حصہ ڈالا۔ تمہید صرف اس لیے باندھی کہ لوگوں کو بات کا اور بات کرنے والے کا پس منظر سمجھ میں آجائے۔ شہاب صاحب نے اپنی ایوانِ صدر سے رخصتی کے بعد ایک مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا "ایوانِ صدر میں میرا آخری دن”۔ وہ لکھتے ہیں:

"ایک دفعہ نئے وزراء کا حلف نہ اٹھا سکی، کیوں کہ دو ‘تر’ اور ‘خشک’ وزارتوں کی تقسیم پر سمجھوتہ نہ ہو سکا تھا۔ بالآخر جب سودا طے ہو گیا تو وزراء کرام حلف اٹھاتے ہی اپنی اپنی وزارت کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ اچانک انکشاف ہوا کہ وزارتِ تعلیم کسی نے قبول نہیں کی۔ مجھے بھیجا گیا کہ جلد جاؤ دیکھو کون سا وزیر ابھی تک گاڑی کی انتظار میں کھڑا ہے۔ اتفاق سے ایک صاحب جن کی ٹانگ میں تکلیف تھی اور بھاگ نہیں سکتے تھے، ابھی پورچ میں گاڑی کے منتظر تھے۔ انہیں پکڑ کر لایا گیا کہ چلو تعلیم کی وزارت کا قلمدان بھی سنبھال لو۔ وہ بندہ خدا راضی نہ ہوتا تھا اور بڑی مشکل سے وزارتِ تعلیم اس کی مرضی کے خلاف اس کے سر تھوپ دی گئی۔”

آج کی خبر:

وفاقی کابینہ میں درج ذیل تقرریاں:

1. ڈاکٹر طارق فضل چودھری کو وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور مقرر کردیا گیا۔
2. علی پرویز ملک کو وفاقی وزیر برائے پٹرولیم مقرر کردیا گیا۔
3. اورنگزیب خان کھچی کو وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ مقرر کردیا گیا۔
4. خالد حسین مگسی کو وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی مقرر کردیا گیا۔
5. حنیف عباسی کو وفاقی وزیر برائے ریلوے مقرر کردیا گیا۔
6. محمد جنید انور کو وفاقی وزیر برائے میری ٹائم افئیرز مقرر کردیا گیا۔
7. محمد معین وٹو کو وفاقی وزیر برائے واٹر ریسورس تعینات کیا گیا۔
8. رضا حیات ہراج کو وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار مقرر کردیا گیا۔
9. سردار محمد یوسف کو وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مقرر کردیا گیا۔
10. شزہ فاطمہ خواجہ کو وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن مقرر کردیا گیا۔
11. رنا مبشر اقبال کو وفاقی وزیر برائے پبلک افئیرز یونٹ مقرر کردیا گیا۔
12. سید مصطفٰی کمال کو وفاقی وزیر برائے قومی ہیلتھ سروس مقرر کردیا گیا۔

دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں: کیا ان میں سے کسی ایک کو بھی ان امور کا تجربہ ہے جن پر انہیں تعینات کیا گیا ہے؟ ہرگز نہیں! بس یہ ایک "بندر بانٹ” ہے جو مسلسل کی جا رہی ہے۔ یہی عمل 76 سالوں سے دہرایا جا رہا ہے۔ تبدیلی کیسے آئے؟؟ کیوں کر آئے؟؟ جب تک "پراسس” نہیں بدلا جاتا، حتمی نتیجہ نہیں بدلا جا سکتا۔ یہ نظام "بندر بانٹ” ہے، اس میں درست نشست پر درست بندہ لایا ہی نہیں جا سکتا۔ اب ابھی اٹھیں، یہود و نصاریٰ حکمرانوں کی تعیناتی دیکھ لیں۔ ٹرمپ کی تعیناتیوں پر نظر ڈالیں۔

ٹرمپ کی کابینہ:

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حالیہ کابینہ کے لیے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور سیاستدانوں کو منتخب کیا ہے۔ ذیل میں کچھ اہم تقرریوں کی تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں:

1. وزیر دفاع (Secretary of Defense): پیٹ ہیگستھ (Pete Hegseth): فاکس نیوز کے میزبان اور سابق فوجی افسر۔ امریکی نیشنل گارڈ میں میجر کے عہدے پر فائز رہے اور عراق و افغانستان میں خدمات انجام دیں۔
2. وزیر خارجہ (Secretary of State): مارکو روبیو (Marco Rubio): امریکی سینیٹر برائے فلوریڈا۔ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے رکن اور سابق صدارتی امیدوار۔
3. وزیر خزانہ (Secretary of the Treasury): اسکاٹ بیسنٹ (Scott Bessent): معروف سرمایہ کار اور ہیج فنڈ مینیجر۔ سوروس فنڈ مینجمنٹ کے سابق چیف انویسٹمنٹ آفیسر۔
4. اٹارنی جنرل (Attorney General): پیم بونڈی (Pam Bondi): فلوریڈا کی سابق اٹارنی جنرل۔ ٹرمپ کی حامی اور ان کے پہلے مواخذے کے دوران وکیل کے طور پر خدمات انجام دیں۔
5. وزیر صحت و انسانی خدمات (Secretary of Health and Human Services): رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر (Robert F. Kennedy Jr.): ماحولیاتی وکیل اور ویکسین کے نقاد۔ چلڈرنز ہیلتھ ڈیفنس کے صدر۔
6. وزیر محنت (Secretary of Labor): لوری شاویز-ڈیریمر (Lori Chavez-DeRemer): ریاست اوریگون کی سابق میئر۔ کاروباری خاتون اور صحت کے شعبے میں تجربہ رکھتی ہیں۔
7. وزیر داخلہ (Secretary of the Interior): ڈگ برگم (Doug Burgum): نارتھ ڈکوٹا کے گورنر۔ کاروباری شخصیت اور ٹیکنالوجی انٹرپرینیور۔
8. وزیر توانائی (Secretary of Energy): ایلون مسک (Elon Musk): ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے سی ای او۔ جدید ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی کے ماہر۔
9. وزیر ہاؤسنگ و شہری ترقی (Secretary of Housing and Urban Development): شان ڈفی (Sean Duffy): کانگریس کے سابق رکن اور ٹی وی شخصیت۔ ہاؤسنگ پالیسی اور شہری ترقی کے معاملات میں تجربہ رکھتے ہیں۔
10. وزیر تعلیم (Secretary of Education): لنڈا میک موہن (Linda McMahon): ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ (WWE) کی سابق سی ای او۔ چھوٹے کاروباری انتظامیہ کی سابق سربراہ۔
11. وزیر برائے ہوم لینڈ سیکیورٹی (Secretary of Homeland Security): کرسٹی نوم (Kristi Noem): ساؤتھ ڈکوٹا کی گورنر۔ زرعی پس منظر اور قدامت پسند پالیسیوں کی حامی۔
12. قومی سلامتی کے مشیر (National Security Adviser): مائیک والٹز (Mike Waltz): کانگریس کے رکن اور سابق گرین بیریٹ آفیسر۔ دفاعی پالیسی اور انسداد دہشت گردی کے ماہر۔
13. چیف آف اسٹاف (Chief of Staff): سوزی وائلز (Susie Wiles): سیاسی مشیر اور ٹرمپ کی انتخابی مہم کی مینیجر۔ ریپبلکن پارٹی کی سینئر حکمت عملی ساز۔
14. سی آئی اے ڈائریکٹر (CIA Director): جان ریٹکلف (John Ratcliffe): نیشنل انٹیلی جنس کے سابق ڈائریکٹر اور کانگریس کے رکن۔ قومی سلامتی اور انٹیلی جنس کے معاملات میں تجربہ رکھتے ہیں۔
15. اقوام متحدہ میں امریکی سفیر (Ambassador to the United Nations): ایلیس سٹیفانک (Elise Stefanik): کانگریس کی رکن اور ریپبلکن کانفرنس کی چیئر۔ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے امور میں سرگرم۔
16. اسرائیل میں امریکی سفیر (Ambassador to Israel): مائیک ہکابی (Mike Huckabee): آرکنساس کے سابق گورنر۔
اب؟؟ مدعا واضح ہے: یہ نظام "فارغ ترین نظام” جس کی کوکھ سے بہتری پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ یہ نظام بانجھ ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے