سرمایہ دارانہ نظام کو جمہوریت کا لبادہ اس خوبصورتی سے اوڑھایا جاچکا ہے کہ اب ان میں تمیز کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ امریکہ کو بہترین جمہوریت کے طور پر بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ عوامی راج کی مثالیں امریکہ سے شروع ہو کر برطانیہ پر ختم کی جاتی ہیں۔ کیا امریکہ میں واقعی حق حکمرانی عام عوام کے پاس ہے ؟ کیا امریکہ میں جمہوریت حقیقی معنوں میں رائج ہے؟ یا پھر امریکہ میں بھی "پیسہ پھینک تماشہ دیکھ” والا ہی معاملہ چل رہا ہے۔ آئیے موجودہ الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کا ہی جائزہ لے لیتے ہیں۔ اس حکومت کو عوام کی اکثریتی رائے دلوانے کے لیے پیسے کا کتنا کردار ہے اس کی ایک جھلک ایلون مسک ہیں۔ امریکہ میں اس وقت ایلون مسک پر صدارت خرید لینے کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔ امریکی عوام ٹرمپ کو ایلون مسک کے پیسوں کے عوض بکا ہوا صدر قرار دے رہے ہیں۔ یہ پیسے کا ہی کمال ہے کہ ایلون مسک کا چار سالہ بیٹا ان کے کندھوں پر سوار ہوکر یوں ایوان صدر میں داخل ہوتا ہے جیسے بچپن میں ہم اپنے دادوں کے کندھوں پر چڑھ کر کبڈی میچ دیکھنے میلوں کا رخ کیا کرتے تھے۔ یہ پیسے کی ہی حسن کارکردگی ہے کہ چار سالہ ایکس ایلون مسک امریکی صدر کے دفتر میں اپنی ناک سے گندگی نکال کر امریکی صدر کے سامنے پڑے ٹیبل پر مل رہا تھا۔ یہ پیسے کا ہی کمال بلکہ جمال ہے کہ ایلوس مسک ہاتھ میں آرا اٹھائے امریکی بیوروکریسی کو ہانکتے نظر آرہے ہیں۔ ایلون مسک نے ٹرمپ کی صدارتی انتخابی مہم پر دل کھول کر پیسہ بہایا۔
ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے ٹرمپ کو امریکی صدر بنانے کے لیے تقریبا 29 کروڑ ڈالر خرچ کر ڈالے۔ اس وقت وہ امریکی صدر کے مشیراعلی کی حیثیت سے امریکی بیوروکریسی کو اپنے آگے ہانک رہے ہیں۔ وہ کبھی برطانیہ کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے نظر آتے ہیں تو کبھی جرمنی کی حکومت سازی کے عمل میں مداخلت کرتے۔ وہ برطانیہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی کینیڈا کو امریکی کالونی بننے کا حکم دیتے۔ کبھی یورپی یونین کے معاملات پر چوہدراہٹ کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی گرین لینڈ کو دھمکیاں دیتے۔ یہ ایک ایلون مسک کی کہانی ہے جس نے 29 کروڑ ڈالر لگا کر امریکی حکومت خرید لی ہے اور اب وہ اس کو نا صرف اپنے کاروبار کی ترویج، اپنی کمپنی کی گاڑیوں کی فروخت میں اضافے اور اپنی سوشل میڈیا ایپ ایکس کے ذریعے سے ذرائع ابلاغ کی دنیا پر تسلط جمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں بلکہ وہ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں اپنی ٹانگ اڑانا بھی حق سمجھ رہے ہیں۔ وہ 29 کروڑ ڈالروں کے عوض پوری امریکی ریاست کو یوں انگلیوں پر نچوا رہے ہیں جیسے مشرقی مرد کو اس کی پسندیدہ بیوی نچواتی ہے۔
یہ کہانی صرف ایک ایلون مسک تک محدود نہیں بلکہ اس جیسے 13 اور ایلون مسک بھی اس وقت محض اپنے پیسے کے زور پر امریکی منصوبہ بندی کے امام بنے ہوئے ہیں۔ ان 13 افراد کی دولت دنیا کے 172 ممالک کی ٹوٹل جی ڈی پی سے بھی زیادہ ہے۔ گذشتہ چار سالوں میں امریکہ کے 12 افراد کی دولت میں 193 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ امریکی جمہوریت سرمایہ داروں کے مکمل نرغے میں ہے۔ درحقیقت یہ سرمایہ دار ہی امریکی اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ انہی کے پیسوں سے حکومتیں وجود میں آتی ہیں اور پھر انہی کے مفادات کے تحفظ کے لیے پوری دنیا کو اپنی طاقت کے زور پر آگے ہانکتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت امریکہ کی ٹیرف پالیسی اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس مفادپرستانہ سرمایہ کاری کو امریکہ میں مکمل قانونی جواز حاصل ہے۔ صرف ٹرمپ نے ہی سرمایہ کاروں کے پیسے کو استعمال نہیں کیا بلکہ یہ امریکہ کی پرانی روایت ہے۔ سابق صدر جوبائیڈن کو ٹرمپ کے بعد سب سے زیادہ سرمایہ کاروں سے چندہ اکٹھا کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ البتہ ٹرمپ اس معاملے میں سب کے ریکارڈ توڑ چکے ہیں۔ 2021 میں امریکی صدر کی تقریب حلف برادری کے لیے جوبائیڈن نے 6 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی رقم جمع کی تھی جو ٹرمپ کے بعد امریکی تاریخ کی سب سے بڑی رقم ہے اور یہ امریکی صدر کی تقریب کے لیے جمع ہونے والی رقوم میں تیسری بڑی رقم کا درجہ رکھتی ہے۔ 2016 میں ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کی تقریب کے لیے 10 کروڑ 60 لاکھ ڈالر جمع کیے تھے جو امریکی تاریخ میں دوسری بڑی رقم ہے۔ امریکی تاریخ میں تقریب حلف برداری کے لیے سب سے زیادہ رقم اکٹھا کرنے کا اعزاز ٹرمپ بھی ٹرمپ کے نام ہے۔ 2024 میں ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے کے بعد تقریب حلف برداری کے لیے 25 کروڑ ڈالر کی رقم جمع کی۔ یہ رقم انتخابات میں کمپین کے دوران خرچ ہونے کے رقم کے علاوہ ہوتی ہے۔ یہ امریکی صدر کی الیکشن میں کامیابی کے بعد صرف اس کی حلف برداری کی تقریب منعقد کرنے کے لیے جمع کی جاتی ہے۔ اس تقریب کے لیے 10 لاکھ ڈالر اور 20 لاکھ ڈالر دینے والوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لیے یہ تقریب لابنگ کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اس وجہ سے اس تقریب میں دنیا بھر سے لوگ پیسے دے کر شریک ہوتے ہیں۔ رقم دینے والوں کو کمیٹی تین طبقات میں تقسیم کرتی ہے اور تین قسم کے ٹکٹس دیے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو بھاری رقم ادا کرنے کے باوجود صرف یادگاری ٹکٹس دیے جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو چھوٹی موٹی تقریبات میں شرکت کی اجازت مل جاتی ہیں۔ حلف برداری کی اصل تقریب میں شرکت کا اعزاز کچھ ہی لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ عمومی طور پر وہ 10 اور 20 لاکھ ڈالر خرچ کرنے والے سرمایہ کار ہوتے ہیں۔
امریکی صدر کی حالیہ تقریب میں ایمازون اور میٹا (جو فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی ہے) نے 10 لاکھ ڈالر، اوپن اے آئی کے سی ای او نے 10 لاکھ ڈالر،گوگل نے بھی 10 لاکھ ڈالر،ایپل کے سی ای او نے غیر محدود فنڈ،فورڈ کمپنی نے 10 لاکھ ڈالر اور اے آئی سرچ سٹارٹ اپ نے 10 لاکھ ڈالر دیے جبکہ اس کے علاوہ متعدد کمپنیوں نے لاکھوں ڈالرز دے کر تقریب میں شریک ہونے کے لیے ٹکٹس حاصل کیے۔جب الیکشن سے لے کر صدر کو ایوان میں پہنچانے تک سارا کھیل پیسے سے رچایا جائے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی پالیسیوں میں وسائل پر قبضے کی جنگ شامل نا ہو۔ حال میں بننے والی حکومت کی بار بار متعدد ممالک کو ٹیرف کی دھمکیاں، کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کی خواہشیں، جرمنی میں حکومت سازی میں مداخلت، چین کے ساتھ جاری سرد جنگ، روس کے ساتھ تیسری عالمی جنگ کے خطرات، غزہ کی پٹی میں معدنی ذخائز پر قبضے کے خواب اور یوکرین و روس کی جنگ میں یوکرین پر 350 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد یوکرین کے 15 ٹریلن ڈالر کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے معاہدات، امریکہ کی دنیا بھر کے وسائل پر قبضے کرنے کی عملی کوششوں کی واضح مثال ہے۔