ہم کہاں جائیں؟

میں ایک بہت اونچے ٹیلے پر کھڑا ہوں
جہاں سے پورا شہر میری نظروں کے سامنے ہے
ٹیلے کے چاروں طرف لوگ ہی لوگ ہیں
جن کے سامنے کے دانت کسی درندے کی ماند نوکیلے ہیں اور ان سے تازہ تازہ سرخ سرخ خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں،
اور ان کے ہاتھ کسی درندے کے پنجوں جیسے اور ناخن بھی تازہ تازہ سرخ سرخ خون میں لتھڑے ہوئے ہیں
ان سب کی خونخوار نظریں مجھ پر جمی ہیں
کہ کب میں ٹیلے سے نیچے اتروں یا گروں اور کب وہ مجھے چیر پھاڑ ڈالیں۔
یہ کسی افسانے کی سطریں نہیں ہیں
یہ میرے وہ محسوسات ہیں جو میرے ارد گرد کا ماحول میرے معاشرے کے حالات اور میرے ارد گرد چلتے پھرتے لوگوں کے روئیوں کی دین ہیں
میرا ملک، میرا وطن ایک جنگل میں بدل چکا ہے۔

یہاں سڑکوں پر راہزن ہی نہیں، راہ چلتے عام لوگ بھی خوف کی علامت بن چکے ہیں۔ ابھی کچھ ماہ پہلے اسلام آباد میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جہاں مبینہ طور پر نشے میں دھت چند افراد نے گاڑیوں کو روک کر سواریوں کو زبردستی نچوایا، اور جنہوں نے انکار کیا ، انہیں بےدردی سے مارا پیٹا۔ یہ کوئی فلمی سین نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ہے۔

یہاں جنگل کا قانون ہے۔ سڑک پر، بازار میں، دفتر میں، ہر جگہ خوف کا راج ہے۔ اگر آپ ٹریفک کے اصولوں کے مطابق کسی سے راستہ مانگیں، تو اگلا بندہ گالیوں کی بوچھاڑ کر دے گا۔ اگر آپ کسی کو غلطی پر ٹوکیں، تو وہ ہاتھ اٹھانے پر تیار ہو جائے گا۔ یہاں اگر کوئی قانون کی پاسداری کرے، تو لوگ اسے کمزور سمجھتے ہیں۔ یہاں طاقتور کے لیے سب کچھ جائز ہے اور کمزور کے لیے صرف ذلت، خوف، اور بے بسی۔

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی اور ہی دنیا میں آ گئے ہیں جہاں ایمانداری جرم بن چکی ہے، جہاں سچ بولنے والا خطرے میں ہے، جہاں انصاف صرف طاقتور کی دہلیز پر بکتا ہے۔ اگر آپ کو کوئی حق مانگنا ہو تو یا تو آپ رشوت دیں، یا پھر اس ظلم کے سائے میں دب کر جییں۔ اگر آپ کسی مجرم کے خلاف آواز اٹھائیں، تو آپ خود مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اگر آپ نے ایمانداری سے روزگار کمانے کی کوشش کی، تو یا تو مافیاز آپ کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے یا سرکاری ادارے آپ کو اس قدر پریشان کر دیں گے کہ آپ خود ہی ہار مان لیں۔

میں سوچتا ہوں کہ ایک معاشرے کو سدھارنے والے وہ تمام عوامل جیسے ماں باپ کی تربیت، سکول اور کالج اور یونیورسٹی میں دیا جانے والا علم، مسجدوں اور گرجا گھروں میں دی جانے والی اخلاقیات کی تعلیمات، سب فیل اور ناکام ہو چکے ہیں۔

اتنے سالوں سے گلی گلی، کوچہ کوچہ پھرنے والی دین کی طرف، بھلائی کی طرف بلانے والی تبلیغی جماعت ناکام ہو چکی ہے۔ علما، مفتی، موٹیویشنل اسپیکر سب کے سب فلاپ! کیوں کہ ان سب کی کوششوں کا کوئی اثر معاشرے میں کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔

وہ کون سی طاقت ہے جو ان سب کے خلاف بہت تیزی سے ابھر کر سب کو ناکام اور فلاپ بنارہی ہے اور پورے معاشرے کو بتدریج جنگل میں بدل رہی ہے ؟ وہ طاقت کسی کو دکھائی نھیں دے رہی ۔ بس آہستہ آہستہ سب کچھ نگلتی جا رہی ہے ۔ کچھ ٹھیک نہیں ہونے والا؟

میں زیادہ دیر اس بلند ٹیلے پر کھڑا نہیں رہ سکوں گا۔ بہت جلد میرے اعصاب شل۔ہوجائیں گے اور میں ٹیلے سے نیچے گر جاؤں گا ۔

پھر ٹیلے کے چاروں طرف موجود لوگ جن کے سامنے کے دانت کسی درندے کی ماند نوکیلے ہیں اور جن سے تازہ تازہ سرخ سرخ خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں
اور جن کے ہاتھ کسی درندے کے پنجوں جیسے اور ناخن تازہ تازہ سرخ سرخ خون میں لتھڑے ہوئے ہیں مجھ پر جھپٹ پڑیں گے اور مجھے چیر پھاڑ ڈالیں گے۔
پھر ان نوکیلے دانتوں اور پنجوں جیسے ہاتھوں کے ناخنوں سے میرے خون کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے