جمہوریت، مذہبی قیادت اور فکری خلاء

جمہوریت اور اسلام کے باہمی تعلق پر ایک طویل علمی و فکری بحث جاری ہے، جس میں مختلف مکاتبِ فکر اپنی اپنی تشریحات اور استدلالات کے ساتھ شریک ہیں۔ اس معاملے میں عمومی طور پر دو بڑے نظریات سامنے آتے ہیں:

ایک وہ جو جمہوریت کو کلیتاً غیر اسلامی اور ناقابلِ تطبیق قرار دیتا ہے، اور دوسرا وہ جو کسی نہ کسی صورت میں جمہوریت کو اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان دونوں آراء کے پیچھے مختلف علمی، فکری اور استدلالی بنیادیں موجود ہیں، جن کا گہرا تجزیہ ضروری ہے تاکہ اس فکری خلاء کو پر کیا جا سکے جو جمہوریت اور مذہبی قیادت کے باہمی تعلق میں پیدا ہو چکا ہے۔

پہلا نکتہ نظر جمہوریت کے جواز کو سرے سے مسترد کرتا ہے۔ اس موقف کے حاملین دو مختلف زاویوں سے اپنے نظریے کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک طرف مذہبی عسکری گروہ (جیسے ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند تنظیمیں) جمہوریت کو مکمل طور پر غیر شرعی قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک شریعت کی رو سے حاکمیت صرف اللہ کی ہے اور جمہوریت چونکہ عوامی حاکمیت کا تصور پیش کرتی ہے، اس لیے یہ صریحاً اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ ان کا استدلال براہِ راست مذہبی نصوص پر مبنی ہوتا ہے، جس میں وہ آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی سے استدلال کرتے ہیں کہ اسلامی طرزِ حکمرانی کسی بھی طرح عوامی حاکمیت پر مبنی نہیں ہو سکتا۔

دوسری طرف، ایک اور طبقہ ہے جو جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے، لیکن اس کے عدم جواز کے لیے وہ مذہبی نصوص کے بجائے خود جمہوریت کے اصل مغربی ماخذات سے استدلال کرتا ہے۔ ان کے نزدیک جمہوریت صرف ایک طرزِ حکومت نہیں بلکہ ایک مکمل فکری و تہذیبی نظام ہے، جو حاکمیت، انسان، حقوق اور قوانین کا ایک مخصوص نظریہ پیش کرتا ہے۔ یہ نظریہ اپنی بنیاد میں سیکولر اور لبرل تصورات پر مبنی ہے، جسے اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ممکن نہیں۔ ان کے مطابق، کسی بھی ایسے نظام کو اسلامی بنانے کی کوشش، جو اپنی اصل میں غیر اسلامی ہو، محض ایک سطحی مفاہمت ہے جو بالآخر اسلامی اقدار کو کمزور کرے گی۔ اس استدلال کے مطابق، جمہوریت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ اس کی نظریاتی ساخت ہی اسلام سے متصادم ہے۔

دوسری جانب، وہ گروہ موجود ہے جو جمہوریت کو کسی نہ کسی طور پر اسلامی اصولوں کے مطابق قابلِ قبول سمجھتا ہے۔ اس گروہ کے اندر بھی دو طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو براہِ راست قرآن و سنت اور اسلامی فقہ سے جمہوریت کے جواز کے لیے دلائل کشید کرتا ہے۔ ان کے نزدیک شورائیت، بیعت، اہل حل و عقد اور امت کی اجتماعی رائے جیسے اسلامی اصول جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے سے کسی حد تک مشابہت رکھتے ہیں، اس لیے جمہوریت کو ایک اسلامی طرزِ حکومت کے طور پر اپنانا ممکن ہے۔ وہ اجتہاد کے ذریعے جمہوریت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اسے شرعی اعتبار سے بھی قابلِ قبول بنایا جا سکے۔

دوسرا رجحان وہ ہے جو جمہوریت کو محض ایک عرف، روایت یا انتظامی طریقہ کار کے طور پر دیکھتا ہے اور اسے بلا جھجک قبول کرتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے حاملین کے نزدیک جمہوریت کو اسلامی اصولوں کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے ایک انتظامی ڈھانچے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، جو مختلف ادوار میں مختلف شکلیں اختیار کر سکتا ہے۔ اسی میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو جمہوریت کو ایک وقتی مصلحت کے طور پر قبول کرتا ہے، مگر اسے کسی مستقل اور آئیڈیل نظام کی حیثیت نہیں دیتا۔ وہ جمہوریت کو صرف ایک عارضی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار کرتے ہیں، لیکن اس کے اسلامی جواز پر زیادہ بحث نہیں کرتے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے جو استدلال اختیار کیا گیا ہے، کیا وہ واقعی علمی و فکری طور پر مضبوط ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کے جواز کے لیے پیش کیے جانے والے دلائل ابھی تک کئی فکری پیچیدگیوں اور کمزوریوں کا شکار ہیں۔ یہی کمزوریاں جمہوریت کے مخالفین کو تقویت فراہم کرتی ہیں، چاہے وہ مذہبی نصوص سے جمہوریت کو رد کرنے والا گروہ ہو یا مغربی فکری بنیادوں سے اس کا بطلان ثابت کرنے والا طبقہ۔ جب تک جمہوریت کے حق میں ایک مضبوط اور استدلالی مقدمہ تیار نہیں ہوتا، اس وقت تک جمہوریت کا اسلامی جواز ایک غیر واضح اور کمزور بیانیہ ہی رہے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کے تصور کو نہ صرف قرآن و سنت کی روشنی میں بہتر انداز میں واضح کیا جائے، بلکہ اسے مغربی فکری پس منظر میں بھی صحیح طور پر سمجھا جائے۔ جمہوریت کو مکمل طور پر رد کرنے والے اور اسے اسلامیانے کی کوشش کرنے والے، دونوں ہی اگر اپنی فکری بنیادوں کو مضبوط نہ کریں، تو یہ فکری خلاء مزید بڑھے گا۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ جدیدیت اور مغربی سیاسی تصورات کے ساتھ اسلام کا تعلق ہمیشہ ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے، جسے جذباتی یا سطحی استدلال سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اسلامی روایت میں خارجی افکار و نظاموں کے ساتھ تعامل کی کیا روایت رہی ہے اور اس سے آج کیا نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

اس ضمن میں ایک اور بنیادی سوال پر غور و فکر کی ضرورت ہے:

کیا اصطلاحات کے معنی ہمیشہ وہی ہوتے ہیں جو ان کے اصل پس منظر میں طے ہوتے ہیں، یا انہیں کوئی نیا، خود ساختہ مفہوم دیا جا سکتا ہے؟ جمہوریت کے حوالے سے یہ سوال اور زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے، کیونکہ اگر اسے ایک "اسلامی مفہوم” دے بھی دیا جائے، تب بھی یہ اپنے تاریخی تناظر میں اسلامی سیاسی تصورات اور اصولی نوعیت کے کئی بنیادی نظریات سے متصادم رہتی ہے۔

چنانچہ، اس معاملے میں دو پہلو اہم ہیں:

اول، کسی اصطلاح کو اس کے اصل مفہوم سے ہٹ کر کوئی خود ساختہ معنی دینا علمی طور پر درست نہیں اور دوم، اگر اسے وقتی طور پر کوئی نیا مفہوم دے بھی دیا جائے، تب بھی اس کے عملی نفاذ اور اطلاق میں شدید مشکلات درپیش رہیں گی۔ اس لیے ہمیں محض کسی اصطلاح کے معنی میں رد و بدل کرنے کے بجائے، پورے فکری اور عملی نظام کو دیکھنا ہوگا کہ اسلام خارجی افکار اور نئے سیاسی و سماجی تصورات کے ساتھ کس طرح تعامل کرتا ہے اور کن زاویوں سے انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوالات نہ صرف علمی تحقیق بلکہ عملی سیاسی حکمتِ عملی کے لیے بھی انتہائی اہم ہیں، جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے