فلسطین تنازعے کا حل، ایک ملک دو ریاستیں؟

فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تنازعے کے دو ریاستوں کے قیام کے حل کی حمایت میں کمی ہو رہی ہے، تو ایسی صورت حال میں خطے میں قیام امن کے لیے ایک مختلف راستہ اپنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

 

 
اسرائیلی صحافی میرون رپوپورٹ اور فلسطینی سیاست دان عونی المشنی ’دو ریاستیں، ایک ملک‘ نامی تنظیم کی سربراہی کر رہے ہیں جس میں اسرائیل فلسطین کنفیڈریشن کے قیام کی وکالت کی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عوامی حمایت اور سرکاری پشت پناہی کے ذریعے پیچیدہ معاملے حل کیے جا سکتے ہیں جو ماضی میں بات چیت کے ذریعے حل نہیں کیے جا سکتے تھے، جن میں اسرائیلی آبادکاری، فلسطینی مہاجرین کی واپسی کا حق اور یروشلم کی تقدیر شامل ہیں۔

 

 
میرون رپوپورٹ نے تل ابیب میں کہا کہ سنہ 1993 میں اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے درمیان طے پائے جانے والے اوسلو امن معاہدے کی ’کلینیکل موت‘ اور بڑھتے ہوئے تشدد کے باعث نئے خیالات کو جگہ ملی ہے۔‘

 

 

ان کا کہنا تھا کہ نئی تجویز کامیاب ہو سکتی ہے کیونکہ ’یہ حقیقت اور دونوں اطراف کی خواہشات کی عکاسی کرتی ہے۔‘
’دو ریاستیں، ایک ملک‘ کا منصوبہ دو ریاستی حل سے مماثلت رکھتا ہے جس میں غرب اردن، غزہ اور مشرقی یروشلم میں اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا مطالبہ کیا گیا تھا، جو سنہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں سے مطابقت رکھتا تھا۔

 
[pullquote]یہ دونوں ریاستیں بالکل جدا نہیں ہوں گی، بلکہ سلامتی، معیشت اور انفرسٹرکچر میں اشتراک کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی عدالت عظمیٰ کو بھی مشترکہ طور پر جواب دہ ہوں گے۔ یروشلم دونوں ریاستوں کا دارالحکومت ہو سکتا ہے۔
[/pullquote]
 

 

 

اس منصوبے میں شہریت اور رہائش کی علیحدگی کا تصور بھی پیش کیا گیا ہے جس کا مقصد تمام مقدس علاقے کے ساتھ یہودیوں اور فلسطینیوں کے ساتھ تاریخی اور روحانی تعلق کا اطمینان ہے۔
بالکل یورپی یونین کی طرح، جہاں ایک ملک کے شہری دوسرے ملک میں رہائش اختیار کر سکتے ہیں اور وہاں کے قوانین کے مطابق رہ سکتے ہیں۔
یہودی آباد کار بائبل کے گھر، غرب اردن میں رہ سکتے ہیں جس طرح مشرق وسطیٰ کی 1948 کی جنگ کے وہ فلسطینی مہاجرین اپنے پرانے گھروں میں آ کر رہ سکتے ہیں جنھیں فلسطینی ریاست کی شہریت دی جا سکتی ہے۔

 
’دو ریاستیں، ایک ملک‘ کو اب ایک سو سے زائد عوامی شخصیات کی حمایت حاصل ہے اور عونی المشنی کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔
اسرائیلی جانب سے سیاست دانوں کے ساتھ بات چیت کے علاوہ انتہائی بنیادی سطح پر بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

 
میرون رپوپورٹ کے مطابق گذشتہ چھ ماہ سے زائد عرصے کے دوران اس تنظیم نے ملک کے سیاسی پس منظر رکھنے والے افراد کے ساتھ ہفتہ وار ملاقاتیں کی ہیں۔
ان کے سوشل میڈیا پر ہزاروں مداح ہیں اور رضاکارانہ کام کرنے والوں کی فہرستیں بھی مرتب کی گئی ہیں۔

اس تنظیم کو مخالفت کا سامنا بھی ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب کو گذشتہ جون میں فلسطینی شہر بیت جالا سے یروشلم منتقل کرنا پڑا جب فلسطین کی بی ڈی ایس تحریک (بائیکاٹ، محرومیت اور پابندیاں نامی تحریک) کے حامیوں نے اس تقریب میں خلل پیدا کرنے کی دھمکی دی تھی۔

 
مخالفین کا کہنا ہے کہ اسرائیلیوں کے ساتھ کسی قسم کے اشتراک کا مطلب قبضے کو تسلیم کرنا ہے تاہم عونی المشنی، جو خود مہاجرین کے بیٹے ہیں، اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
فتح پارٹی کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ ’معمول پر لانے کا مطلب ہے کہ مقبوضہ رہنا۔ لیکن اسرائیلیوں کے ساتھ یہ تعلق قبضہ ختم کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے۔‘
اس منصوبے کا ایک اہم پہلو اسرائیلی معاشرے کے اندر دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم کو کم کرنے کی بھی کوشش ہے۔

 
میرون رپوپورٹ کہتے ہیں: ’آج، امن والا کیمپ کہلائے جانے والے خود سے ہی باتیں کرتے ہیں۔ وہ آبادکاروں اور تمام دائیں بازو کو دشمن کی طرح سمجھتے ہیں۔‘
اس کے برعکس ’دو ریاستیں، ایک ملک‘ کی مہم آبادکاروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی سرگرم ہے۔

 

 

بار الن یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس دان میناچم کلین اسرائیل فلسطین تنازعے میں مذاکرات کار رہ چکے ہیں۔ وہ اس بارے میں مزید سوال اٹھاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تجاویز نہ صرف زیادہ واضح نہیں اور انھیں دو ریاستی حل کے مقابلے میں بین الاقوامی حمایت بھی حاصل نہیں، بلکہ فلسطینی مہاجرین کی اسرائیل میں واپسی کے بدلے میں غرب اردن میں یہودی آبادکاروں کا قیام پذیر رہنے کا خیال بھی زیادہ متاثرکن نہیں ہے۔

 
یہ آبادکاری بین اقوامی قوانین کے مطابق غیرقانونی ہے، اگرچہ اسرائیل اس کو اس سے اختلاف ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادیں فلسطینیوں کی واپسی کے حق کو تسلیم کرتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’فلسطینی عوام کے لیے یہ تبادلہ تسلیم کرنا مشکل ہے۔ یہ تسلیم کرنا میرے لیے بھی مشکل ہے۔‘
عونی المشنی اس حوالے سے کہتے ہیں: ’فلسطینی پہلے ہی دو ریاستی حل کو قبول کر چکے ہیں، جس میں مہاجرین کی واپسی شامل نہیں ہے۔ یہ پروجیکٹ مہاجرین کی واپسی کی تجویز پیش کرتا ہے۔ یہ مکمل طور پر منصفانہ نہیں ہے، لیکن نسبتاً زیادہ منصفانہ ہے۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے