ہاؤس اسپرو کیوں نایاب ہوتی جا رہی ہے؟

ہاؤس اسپرو یا عام چڑیا دنیا بھر کے شہری علاقوں میں پائی جانے والی ایک مقبول ترین پرندہ ہے۔ یہ ایک چھوٹے سائز کا بھورے رنگ کا پرندہ ہے، جس کی لمبائی تقریباً ٹینس بال جتنی ہوتی ہے اور اس کی پیٹھ پر سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔نر اور مادہ چڑیا ایک جیسے سائز کے ہوتے ہیں، مگر رنگ میں فرق پایا جاتا ہے:نر چڑیا گہرے بھورے رنگ کی ہوتی ہے، اس کے گلے پر سیاہ دھبہ، سینہ سرمئی اور گال سفید ہوتے ہیں۔

مادہ چڑیا پورے جسم پر ہلکے بھورے رنگ کی ہوتی ہے اور اس کے سر پر سیاہ تاج یا سفید گال نہیں ہوتے۔پاکستان میں چڑیوں (Sparrows) کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں کچھ عام اور کچھ مخصوص علاقوں تک محدود ہیں۔زولوجیکل سروے آف پاکستان کے زولوجسٹ اور باہیوڈاہئورسٹی ماہر الطاف حسین ناریجو کے مطابق

پاکستان میں پائی جانے والی چڑیوں کی اہم اقسام درج ذیل ہیں:

1. گھریلو چڑیا (House Sparrow) – Passer domesticus
سب سے عام چڑیا جو شہروں، دیہاتوں اور زرعی علاقوں میں بکثرت پائی جاتی ہے۔
2. سندھ چڑیا (Sindh Sparrow) – Passer pyrrhonotus
دریائے سندھ کے کناروں اور جنوبی پاکستان کے مخصوص علاقوں میں نظر آتی ہے۔
3. پیلے گلے والی چڑیا (Yellow-throated Sparrow) – Gymnoris xanthocollis
زیادہ تر درختوں والے علاقوں اور باغات میں دیکھی جاتی ہے۔
4. ہسپانوی چڑیا (Spanish Sparrow) – Passer hispaniolensis
بلوچستان اور دیگر صحرائی علاقوں میں پائی جاتی ہے۔
5. ریشمی چڑیا (Russet Sparrow) – Passer cinnamomeus پاکستان کے شمالی علاقوں، خاص طور پر گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں نظر آتی ہے۔

الطاف حسین ناریجو کا کہنا ہے کہ چڑیاں پاکستان کے ماحولیاتی نظام میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں، لیکن شہری علاقوں میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں اور رہائش گاہوں کے نقصان کی وجہ سے ان کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

چڑیوں کی کم ہوتی آبادی کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے ہر سال 20 مارچ کو "ورلڈ اسپرو ڈے” منایا جاتا ہے۔اور اس سال کا موضوع تھا "قدرت کے ننھے پیامبروں کو خراجِ تحسین” ۔ اس دن کا مقصد عوام میں آگاہی پیدا کرنا اور ان اقدامات کو فروغ دینا ہے، جن کے ذریعے ہم ان معصوم پرندوں کو دوبارہ اپنی زندگی کا حصہ بنا سکیں۔

ماضی میں، پاکستان میں زیادہ تر گھر مٹی اور لکڑی کے ہوتے تھے، جن میں چڑیوں کے لیے قدرتی گھونسلے بنانے کی جگہیں دستیاب تھیں۔ مگر اب جدید کنکریٹ اور سیمنٹ کی تعمیرات میں یہ جگہیں ختم ہو چکی ہیں، جس کے باعث چڑیوں کی رہائش شدید متاثر ہوئی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں پے کڑی نظر رکھنے والی سماجی تنظیم وانگ کے خلیل رونجھو کے مطابق، بڑھتی ہوئی زمینی، فضائی اور صوتی آلودگی، حتیٰ کہ موبائل فون ٹاورز سے نکلنے والی مائیکرو ویوز بھی چڑیوں کی آبادی پر منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ مقامی درختوں اور پودوں کی بے دریغ کٹائی کے بعد جدید تعمیرات کے لیے ایسے پودے لگائے جا رہے ہیں جو چڑیوں کے طرزِ زندگی سے مطابقت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے انہیں خوراک اور گھونسلے بنانے کے لیے موزوں جگہ نہیں ملتی۔ مزید برآں، پہلے کچے گھروں میں چڑیاں باآسانی گھونسلے بنا لیا کرتی تھیں، لیکن اب کنکریٹ کی جدید اور بند عمارتوں میں ان کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ اگر کوئی چڑیا کسی گھر میں داخل ہو بھی جائے تو چلتے ہوئے پنکھے سے ٹکرا کر ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، جس سے ان کی بقا مزید مشکل ہو گئی ہے۔

معروف ماحولیاتی جرنلسٹ ظریف بلوچ کے مطابق، ہاؤس اسپرو کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجوہات جدید طرزِ تعمیر اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی (Deforestation) ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں گھروں کی تعمیر ایسی ہوتی تھی کہ ان میں چڑیوں کے گھونسلے بنانے کے لیے قدرتی جگہیں دستیاب ہوتی تھیں، لیکن آج کے کنکریٹ سے بنے جدید گھروں میں ان کے لیے کوئی پناہ باقی نہیں رہی۔ دوسری جانب، تیزی سے بڑھتی ہوئی جنگلات کی کٹائی نے چڑیوں کے قدرتی مسکن کو تباہ کر دیا ہے، جس کے باعث نہ صرف ان کی رہائش محدود ہو گئی ہے بلکہ خوراک کے ذرائع بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔

ظریف بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ چڑیاں ہماری فطرت کا حصہ بنی رہیں، تو ہمیں اپنی طرزِ تعمیر میں ایسے قدرتی عناصر شامل کرنے ہوں گے جو چڑیوں کو گھونسلے بنانے کا موقع فراہم کریں۔ مزید برآں، جنگلات کی کٹائی کو روک کر بڑے پیمانے پر شجرکاری کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ ان پرندوں کے لیے خوراک اور رہائش کے قدرتی ذرائع بحال کیے جا سکیں۔

یورپ کے شہر اسپین میں چڑیا کی آبادی کے رجحانات پر تفصیلی تحقیق کے اہم نتائج اور 25 سالہ تحقیق (1995-2021) سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسپین میں ہاؤس اسپَیرو (-18%) اور یوریشین ٹری اسپَیرو (-13.52%) کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ کمی شہری اور قدرتی دونوں علاقوں میں دیکھی گئی ہے۔

پچھلے کئی سالوں سے چڑیوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے پیچھے کئی سائنسی وجوہات کارفرما ہیں:

ماضی میں چڑیاں کچے مکانوں، لکڑی کی چھتوں اور دیواروں میں آسانی سے گھونسلے بنا لیتی تھیں۔ لیکن آج کنکریٹ کے جدید گھروں میں ایسی جگہیں ناپید ہو چکی ہیں، جس سے چڑیوں کے قدرتی مسکن ختم ہو گئے ہیں۔

چڑیوں کی خوراک زیادہ تر بیج اور کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں اور زرعی نظام میں بڑی تبدیلیاں ان کے لیے خوراک کی کمی کا باعث بنی ہیں: مگر جدید زراعت میں کیڑے مار ادویات (Pesticides) کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ان کی قدرتی خوراک تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ یہ زہریلے کیمیکلز چڑیوں کے جسم میں جا کر انہیں بیمار اور کمزور کر دیتے ہیں۔

سائنسی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ موبائل ٹاورز اور ان سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی لہریں (Electromagnetic Radiation) چڑیوں کی نیویگیشن سسٹم کو متاثر کرتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ راستہ بھٹک جاتی ہیں اور ان کی افزائش نسل پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔

بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی چڑیوں کی صحت پر براہ راست اثر ڈال رہی ہے، جبکہ درجہ حرارت میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیاں بھی ان کی بقا کے لیے خطرہ بن رہی ہیں۔ آلودہ فضا اور پانی ان کے لیے زہریلے ثابت ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی تعداد گھٹ رہی ہے۔

چڑیوں کی بقا کے لیے ہمیں فوری اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے، جسے کہ گھروں، باغات اور عمارتوں میں چڑیوں کے لیے مخصوص گھونسلے اور برڈ ہاؤسز لگانااور گھروں میں مٹی کے برتنوں میں پانی اور دانہ رکھنے کی روایت کو زندہ کیا جائے، تاکہ چڑیاں آسانی سے خوراک حاصل کر سکیں۔

اس کے ساتھ ساتھ قدرتی رہائش گاہوں کی بحالی انتہائی ضروری ہے ،اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں، تاکہ چڑیوں کو محفوظ پناہ گاہیں مل سکیں۔

کیڑے مار ادویات اور زہریلے کیمیکلز کا کم استعمال کرنا ، زراعت میں حیاتیاتی (Organic) طریقے اپنانے چاہئیں، تاکہ چڑیوں کی خوراک زہریلی نہ ہو اور انہیں نقصان نہ پہنچے ۔

موبائل ٹاورز کی تعداد کو کنٹرول کرنا اور برقی مقناطیسی آلودگی کو کم کرنے کے لیے حکومت اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

چڑیاں ہماری فطرت کا ایک لازمی حصہ ہیں، جو نہ صرف ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں بلکہ انسانوں کے لیے خوشی اور خوبصورتی کا ذریعہ بھی ہیں۔ اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو یہ خوبصورت پرندہ ہماری اگلی نسلوں کے لیے صرف کتابوں اور تصویروں تک محدود ہو جائے گا۔

ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم چڑیوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں، تاکہ قدرت کا یہ حسین تحفہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے۔ آئیے، اپنی زمین کو ان ننھے مہمانوں کے لیے ایک بار پھر محفوظ بنائیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے