اسلامی نظریاتی کونسل اور دوسری شادی کا مسئلہ

مفتی امجد عباس اسلامی نظریاتی کونسل کا شمار اُن اداروں میں ہوتا ہے جن کی حیثیت علامتی ہے۔ مختلف ادوار میں اس کے چیئرمینوں کا عام طور پر تعین "سیاسی رشوت” کے طور پر ہوتا چلا آ رہا ہے۔ چیئرمین ہوں یا ممبران، بہت کم، اہل افراد اس کا حصہ بنے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل بظاہر آئینی طور پر اپنی مدت پوری کر چکی ہے، اس کے باوجود یہ کونسل قائم اور وقتاً فوقتاً یہ ادارہ، خبروں کی زینت رہتا ہے۔

اب موجودہ چیئرمین، جو کہ ایک بریلوی مدرسے کے مدیر بھی ہیں، کا ایک بیان اور اسی ضمن میں کونسل کی مجموعی رائے وائرل ہے کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری نہیں نیز دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی کو طلاق کے اختیار کا سپریم کورٹ کا فیصلہ نادرست ہے۔

کونسل بیشتر ادوار میں مسلکی "دار الافتاء” کا روپ دھارے رہی ہے، اب بھی یہی کیفیت ہے۔

اسلامی دنیا میں جاری جدیدیت اور روایت کا تنازع یہاں بھی موجود ہے۔ پاکستانی قانون میں بیویوں میں عدل کے ارشاد کے موافق، دوسری شادی کو پہلی بیوی کی رضامندی سے مشروط کیا گیا ہے، سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں یہ بھی قرار دیا کہ دوسری شادی کی صورت میں پہلی بیوی، طلاق لے سکتی ہے۔ 28 اکتوبر 2024ء کو یہ خبر شائع ہوئی:

سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ اگر خاوند پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرتا ہے تواس کی بنیاد پر پہلی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ شادی کا معاہدہ ختم کرسکتی ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ کا 18صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔۔۔

بظاہر پاکستان میں ہوئی قانون سازی (کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت شرط ہے نیز سپریم کورٹ کا فیصلہ) درست ہے۔ مشکل فقہی ذہن کی ہے جو ماضی کی روایات میں الجھ کر حال اور مستقبل کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ جو مذہبی علما یہ کہتے ہیں کہ "شرعاً” دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت شرط نہیں، کیا وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ "شرعاً” شیر خوار بچی کا نکاح، بزرگ انسان سے کرنے میں "ممانعت” نہیں ہے، جبکہ پاکستانی قانون میں اسے جرم قرار دیا گیا ہے۔

ماضی کی روایات سے محض جواز کو بنیاد بنا کر، مناسب قانون سازی کا انکار کیسے درست قرار پا سکتا ہے!

ہماری دانست میں نکاح و طلاق کے سلسلے میں ریاست کو مزید بہتر قانون سازی کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں مغربی ممالک کی قانون سازی کو بطور نمونہ دیکھا جا سکتا ہے، نکاح و طلاق جیسے معاہدوں کو بہتر سے بہتر بنانا منع نہیں ہے کہ یہ عبادی امور میں سے نہیں ہیں۔

کونسل کے بس میں ہو تو وہ نابالغی کی شادی کو بھی "جائز” گردانے، نیز غیر مسلم شہریوں سے جزیہ لینے کی سفارش پیش کرے۔۔۔ لیکن کونسل کو، ایک مدت سے مقننہ نے سنجیدہ لینا چھوڑ دیا ہے، اس کا بڑا سبب کونسل خود ہے، جسے شک ہو وہ کونسل کی سفارشات اور چیئرمینوں کے بیانات دیکھ لے۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے