جمہوریت کی اصل روح یہ ہے کہ ہر قوم، برادری، اور علاقے کو مساوی نمائندگی ملے، تاکہ ہر شہری کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لاسی کمیونٹی، جو محب وطن، محنتی اور باشعور افراد پر مشتمل ہے، ابھی تک وہ سیاسی حیثیت حاصل نہیں کر سکی، جس کی وہ حق دار ہے۔
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں، تو ہمیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی برادری کا کوئی مؤثر نمائندہ نظر نہیں آتا۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اقتدار کی رسہ کشی اپنے درمیان ہی رکھی، اور لاسی عوام کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ہر الیکشن میں ہمیں خواب دکھائے جاتے ہیں، وعدے کیے جاتے ہیں، مگر جب وقت آتا ہے تو ہم وہیں کھڑے ہوتے ہیں جہاں پہلے تھے، بغیر کسی حقیقی قیادت کے، بغیر کسی سیاسی آواز کے۔
یہ صورتحال صرف مایوس کن ہی نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی شعور کے لیے ایک لمحہ فکریہ بھی ہے۔ آخر کب تک ہم دوسروں کی سیاست کا ایندھن بنتے رہیں گے؟ کب تک ہمارے بنیادی مسائل نظر انداز ہوتے رہیں گے؟ کب تک ہم صرف تماشائی بنے رہیں گے، جبکہ فیصلے ہمارے مستقبل پر ہو رہے ہوں گے؟
اب وقت آ چکا ہے کہ لاسی کمیونٹی اپنی سیاسی طاقت کو پہچانے اور اپنے اندر سے ایک مضبوط، دیانتدار اور باصلاحیت قیادت کو آگے لائے۔ ایک ایسا نمائندہ، جو ہمارے حقیقی مسائل کو سمجھے، ہمارے حقوق کے لیے آواز بلند کرے، اور ہمیں محض ووٹر کے بجائے ایک فیصلہ ساز قوم میں تبدیل کرے۔
آنے والے انتخابات میں اگر ہم متحد ہو کر اپنے ہی کسی مضبوط اور قابل فرد کو قومی یا صوبائی اسمبلی میں پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں، تو یہ ہماری برادری کے لیے ایک نئے دور کی شروعات ہو سکتی ہے۔ یہ نہ صرف ہماری موجودہ نسل کے لیے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک تاریخی موڑ ثابت ہوگا۔
یہ فیصلہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں طویل انتظار کے بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ سیاسی بے بسی کے دائرے سے نکل کر اپنی شناخت کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے اس بار بھی خاموشی اختیار کی، تو شاید پھر ایک طویل عرصے تک ہمیں کوئی سننے والا نہ ہو۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم آگے بڑھیں، اپنی سیاسی پہچان کو قائم کریں، اور جمہوری عمل میں اپنی برادری کو ایک مؤثر طاقت کے طور پر منوائیں!