وفاق کے بحران کا حل: بغاوت نہیں، حقیقی وفاقی پارلیمانی جمہوریت ہے!

وفاقِ پاکستان کا موجودہ بحران محض سیاسی عدم استحکام کا مسئلہ نہیں، بلکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کا نتیجہ ہے،وہ ‘سٹیل فریم’ جس نے دہائیوں سے ملک کی تقدیر کا فیصلہ اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ یہی تسلط تمام بحرانوں کی جڑ ہے، جو جمہوریت کو کچلتا ہے، آئین کو پسِ پشت ڈالتا ہے، اور وفاقی نظام کو محض ایک دکھاوا بنا دیتا ہے۔ اقتصادی فیصلے عوامی فلاح و بہبود کی بجائے ملٹری سیکیورٹی کے محور کے مطابق کیے جاتے ہیں۔

عدلیہ سے لے کر میڈیا تک، ہر ادارہ اس کے سائے میں کام کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں حقیقی جمہوری طرزِ حکمرانی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس کے خلاف بے بس اور دبے ہوئے افتادگان خاک، جو خود کو اس نظام کے خلاف کمزور محسوس کرتے ہیں، اکثر ملک کے ٹوٹنے یا توڑنے کی بات کرتے ہیں اور ڈھاکہ کے سقوط کو یا تو ایک وارننگ کے طور پر یا ایک آخری حل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

لیکن تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ ریاست کا ٹوٹنا فوجی جبر کو کمزور نہیں کرتا بلکہ اسے مزید تقویت دیتا ہے۔ جب کوئی ملک فوجی حکمرانی کے تحت ٹوٹتا ہے، تو اسٹیبلشمنٹ مزید سختی اور جبر کو “استحکام” اور “قومی سالمیت” کے نام پر جائز قرار دیتی ہے۔ اکثریتی صوبہ اس جبر کو بلا خوف اور بے شرمی کے ساتھ “غداروں” کی بیخ کُنی کے نام پر بھر پور طریقے سے استعمال کرتا ہے اور اُسے لاعلم اور سادہ لوگوں کی تائید بھی حاصل رہتی ہے۔

بلوچستان میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ 1971 میں مشرقی پاکستان میں ہونے والے واقعات سے ملتا جلتا ہے—تشدد، جبری گمشدگیاں، اور ہر اختلافی آواز کو “غداری” کا نام دینا۔ لیکن 1971 اور 2025 میں کچھ نمایاں فرق بھی ہیں۔ مشرقی پاکستان میں عوام نے شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو 1970 کے انتخابات میں واضح اکثریت سے منتخب کیا تھا، جس نے اسے علیحدگی کے بجائے ملک کے اقتدار پر ایک آئینی حق دیا۔

اس کے برعکس، بلوچستان میں کوئی ایسی متحدہ قیادت یا کوئی ایسی بڑی سیاسی جماعت نہیں ہے جو مکمل طور پر علیحدگی کے ایجنڈے پر متفق ہو۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کی علیحدگی میں بھارت کی فوجی مداخلت اور عالمی سفارتی حمایت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا، جبکہ 2025 میں کسی بڑی طاقت کی جانب سے بلوچستان کی علحیدگی یا آزادی کے لیے ایسی کوئی کھلی حمایت موجود نہیں ہے۔ پاکستانی فوج، اگرچہ داخلی چیلنجز سے دوچار ہے، لیکن آج کے دور میں کسی بھی “بغاوت” کو 1971 کے حالات کی نسبت دبانے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے۔

دنیا کے کئی دوسرے کثیرالنسلی یا کثیرالقومی ممالک بھی اسی طرح کے سول-ملٹری بحرانوں کا شکار رہے، لیکن وہاں کے عوام نے علیحدگی کے بجائے جمہوری بحالی کا راستہ اختیار کیا۔ ارجنٹینا، جو ایک عرصے تک فوجی حکمرانی میں جکڑا رہا، ٹوٹا نہیں، بلکہ اس نے جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کی اور فوجی حکمرانوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔

انڈونیشیا میں، جہاں برسوں تک سہارتو کی فوجی حکومت قائم رہی، وہاں بھی ریاستی سقوط (dismemberment)کے بجائے شہری مزاحمت (civil resistance) کے ذریعے اصلاحات ہوئیں۔ حتیٰ کہ میانمار میں، جہاں فوج کی گرفت ابھی تک مضبوط ہے، سب سے طاقتور جدوجہد ریاست کے ٹکڑے کرنے کے بجائے جمہوریت کی بحالی کے لیے کی جا رہی ہے۔

دنیا بھر میں ان کے علاوہ بھی کئی اور ممالک نے فوجی آمریت یا فوج کے تسلط سے نکلنے کے لیے جمہوریت کی راہ اختیار کی ہے۔ پرتگال کے "کارنیشن انقلاب” (1974) میں فوج کے اندر کے اصلاح پسند افسران نے بغیر خون بہائے جمہوریت بحال کی، جبکہ جنوبی کوریا (1987) میں طلبہ اور مزدوروں کے بڑے پیمانے پر مظاہروں نے فوجی حکومت کو ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ چلی (1990) میں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے آگستو پنوشے کی آمریت کا خاتمہ ہوا، اور نائجیریا (1999) میں فوجی حکمران خود ہی جمہوری انتخابات کرانے پر راضی ہوئے۔

ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ فوجی تسلط سے نجات کے لیے پرامن عوامی تحریکوں، فوج کے اندر اصلاحات، اور قانونی راستوں کو اپنانا ضروری ہے۔ جیسا کہ پرتگال اور نائجیریا میں فوج کے اندر تبدیلی آئی، یا جنوبی کوریا اور چلی میں عوامی دباؤ نے کام کیا۔ پاکستان کو بھی اسی طرح کے جامع منصوبے کی ضرورت ہے جس میں عوامی یکجہتی، سیاسی اصلاحات، اور اداروں کے درمیان توازن شامل ہو۔ بین الاقوامی دباؤ بھی، جیسا کہ گھانا کے معاملے میں، اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے اصل جنگ جغرافیے کی نہیں، گورننس کی ہے۔ ‘سٹیل فریم’ کو توڑنا ہوگا—نہ کہ ملک کو جرنیلوں کے حوالے کرکے، بلکہ ان سے اقتدار واپس لے کر۔ فوجی حکمرانی کا حل علیحدگی نہیں، کیونکہ اس سے صرف جبر کو مزید جواز (legitimacy) ملے گا، بلکہ اس کا اصل حل ایک مضبوط وفاقی اور پارلیمانی جمہوریت کے لیے متحدہ اور مشترکہ جد و جہد ہے۔

مظلوم اور مایوس لوگوں کو سمجھنا ہوگا کہ حقیقی آزادی کا راستہ سیاسی مزاحمت، آئینی بالادستی، اور سویلین اقتدار کی بحالی میں ہے۔ علیحدگی کا راستہ دراصل انہی قوتوں کو مضبوط کرتا ہے جن کے خلاف وہ لڑ رہے ہیں۔ ہمارے سامنے اسّی کی دہائی کی تحریک بحالئِی جمہوریت ہے جس نے طاقتور فوجی آمر کی گرفت کو کمزور کیا تھا۔

اس بحران کے حل کے لیے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر پنجاب کے ان دانشوروں کو، جو خود کو ملک کا اصل نمائندہ سمجھتے ہیں، چھوٹے صوبوں کے گورننس کے سنگین بحران کا ادراک کرتے ہیں، انہیں ان مسائل کو نظر انداز کرنے یا ان پر بات کرنے والوں کو “غدار” قرار دینے کے بجائے، حقیقت پسندانہ طور پر وفاقی یکجہتی اور جمہوری اصولوں پر توجہ دینی ہوگی۔ آج نواب زادہ نصراللہ جیسی شخصیت نہیں ہے لیکن یہ ملک بانچھ تو نہیں ہو گیا ہے کہ لوگوں کو جوڑنے کا کردار کوئی اور نہ ادا کر پائے!

چھوٹے صوبوں کے سیاسی دانشوروں اور کارکنوں کو یہ سمجھنا ہوگا، یا معتبر دانشوروں کو انہیں یہ بات سمجھانی ہوگی کہ ریاستی جبر کے خلاف جذباتی ردعمل میں ایسی حکمت عملی اپنانا جو فوج کو مزید سختی کا جواز فراہم کرے، بالکل نقصان دہ ہے۔ اس کے برعکس، انہیں آئینی، جمہوری اور وفاقی پاکستان کی بحالی کے لیے پنجاب میں موجود اپنے ہم خیال سیاسی دانشوروں اور جمہوریت پسند قوتوں کے ساتھ روابط مضبوط کرنے چاہئیں، تاکہ ایک متفقہ بیانیہ تشکیل دیا جا سکے جو ملک کو فوجی جبر سے نکال کر عوامی حکمرانی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ خوش قسمتی سے محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، اور ایاز پلیجو جیسے بصیرت رکھنے والے رہنما موجود ہیں جو اس اہم کام کو انجام دے سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے