قوم پرستی یا نیشنلسٹ تحریک محض جذباتی نعروں کا ہجوم نہیں بلکہ ایک فکری اور نظریاتی ارتقاء کا نام ہے، جو تہذیبی شعور، لسانی شناخت، ارضی غیرت اور ثقافتی خودداری پر استوار ہوتا ہے۔ یہ وہ عظیم فکری روشنی ہے جو اقوامِ عالم کو ظلمت و غلامی سے نکال کر خودمختاری و وقار کے زینے پر لے آتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں جس شے کو "قوم پرستی” کا نام دیا جا رہا ہے، کیا وہ حقیقتاً اسی فکری تسلسل کا شاخسانہ ہے یا محض مفاداتی لبادہ ہے جس کے نیچے "نظریۂ ضرورت” کی پرانی بوسیدہ چادر بچھی ہے؟
گلگت بلتستان میں قوم پرستی کی تاریخ نہ صرف مختصر ہے بلکہ حد درجہ متنازعہ اور مشکوک خطوط پر بھی استوار رہی ہے۔ یہاں کی قوم پرستی نہ کسی اصولی منشور کی مرہونِ منت رہی، نہ ہی اس نے کبھی کسی دیرپا نظریاتی یا فکری تسلسل کو جنم دیا۔ ہر وہ شخص جو وقتی جوشِ خطابت یا عوامی ہمدردی کے زور پر مقبول ہوا، چند ہی برسوں میں خود اس نعروں کے قبرستان میں دفن ہوتا چلا گیا جن سے وہ خود کو زندہ رکھتا تھا۔
عبدالحمید خان، ایک زمانے میں قوم پرستی کا چمکتا دمکتا ستارہ تصور کیا جاتا تھا۔ نوجوان اس کے نعروں کو دیواروں پر لکھ کر اپنی سیاسی بلوغت کی گواہی دیتے تھے۔ میں خود اس زمانے میں ایک ناتجربہ کار طالب علم تھا اور محلے کی ہر خالی دیوار کو اُس کے انقلابی نعروں سے سجا دیتا تھا، اس یقین کے ساتھ کہ شاید یہی وہ مسیحا ہے جو ہمارے خطے کو جمود سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر ڈالے گا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ جب اس چہرے سے نقاب ہٹا، تو اس کے پیچھے ایک ایسا شخص برآمد ہوا جو آج گلگت کے ایک پُرتعیش بنگلے میں پرسکون زندگی گزار رہا ہے، اور جن نعروں کا وہ پرچارک تھا، وہ آج وقت کے شور میں دب چکے ہیں۔
پھر قوم پرستی کے اسی خول کو اوڑھ کر نواز خان ناجی جلوہ گر ہوئے۔ انہوں نے نوجوانوں کے معصوم جذبات کو کیش کر کے اسمبلی تک کا سفر طے کیا، اور وہاں جا کر پاکستان کے آئین اور قانون پر حلف اٹھایا۔ مگر عین اسی وقت وہ جامعات میں قوم پرستی کی ایسی تحریکیں بھی چلا رہے تھے جن کی اساس ہی پاکستانی ریاست سے انکار پر تھی۔ نوجوانوں سے کسی نے کبھی سوال نہیں کیا کہ ایک ہی وقت میں ریاست کے آئینی ڈھانچے کا حصہ بن کر، ریاستی اداروں کی مخالفت کس اصول پر جائز ہے؟ دو سال قبل میری ان سے ایک مختصر ملاقات اسلام آباد کے ملوڈی ہوٹل میں ہوئی۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ کی جماعت، بی این ایف، کا نظریہ گلگت بلتستان کے کتنے نوجوانوں تک منتقل ہو چکا ہے؟ ان کا جواب تھا: "دو سو نوجوانوں تک بھی نظریہ منتقل نہیں کر سکا۔” اس پر میں نے استفسار کیا کہ پھر اسمبلی میں حلف کیوں لیا؟ جواب میں غصے کے سوا کچھ نہ تھا۔
ایسا ہی کچھ معاملہ سکردو سے تعلق رکھنے والے شہزاد آغا کا بھی ہے۔ ان کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ وہ کن نظریات کے ساتھ ابھرے اور آج کن حلقوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ یہ تمام شخصیات، جو کل قوم پرستی کے چمکتے ستارے تھیں، آج اقتدار اور مراعات کے آسمانوں پر تیر رہے ہیں، اور جنہوں نے نوجوانوں کے جذبات کو تختہ مشق بنا کر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گلگت بلتستان کے مسائل پر آواز اٹھانا ہی قوم پرستی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر میں بھی، ایک معمولی طالبعلم اور صحافی ہونے کے باوجود، اسی صف میں کھڑا ہوں۔ مگر ہر وہ شخص جو عوامی جذبات کی ترجمانی کرے، اسے قوم پرست قرار دینا دراصل قوم پرستی کے اصل مفہوم کی توہین ہے۔
قوم پرستی وہ اعلیٰ نظریہ ہے جو قربانی، صداقت، اور شعوری جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جس میں محض جذبات نہیں بلکہ مطالعہ، مشاہدہ اور مسلسل فکری عمل درکار ہوتا ہے۔ مگر گلگت بلتستان کے اکثر نام نہاد قوم پرستوں نے اس نظریے کو ایک وقتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، اور جیسے ہی مقصد براری کی سیڑھی پوری ہوئی، اس ہتھیار کو زنگ آلود کر کے کسی کونے میں پھینک دیا۔
نوجوانوں کو جان لینا چاہیے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ استعمال انسان ہی ہوا ہے، خاص طور پر وہ نوجوان جن کے اندر تبدیلی کی آگ ہوتی ہے مگر شعور کی راہنمائی نہیں۔ ہر دور میں نوجوانوں کو خام مال کی طرح استعمال کیا گیا، ان کے کندھوں پر بندوق رکھ کر ذاتی جنگیں لڑی گئیں، اور آخرکار وہی نوجوان تنہا، مایوس اور غیر متعلقہ بنا دیے گئے۔
آج گلگت بلتستان میں قوم پرستی کے نام پر جو تحریکیں چل رہی ہیں، وہ بھی مستقبل میں بعینہ انہی کرداروں کے ساتھ سامنے آئیں گی نقاب بدلیں گے، چہرے نئے ہوں گے، مگر سازش وہی پرانی ہو گی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اصل تجزیہ نظریے کا ہوتا ہے، چہرے اور نام محض علامتیں ہیں۔
لہٰذا، گلگت بلتستان کے نوجوانوں سے میری التجا ہے کہ اپنی فکری سمت کا تعین خود کریں۔ جذبات کے دھارے میں بہہ کر ان نعروں کے پیچھے نہ چلیں جن کی بنیادیں کھوکھلی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ سوال کرنا سیکھیں، دلیل مانگیں، اور ہر اس شخص کا محاسبہ کریں جو آپ کے جذبات کو اپنی سیڑھی بنانا چاہتا ہے۔۔۔ قوم پرستی، اگر کوئی شے ہے، تو وہ فقط اپنے لوگوں کے لیے بےلوث محبت، غیر مشروط خدمت، اور فکری دیانت کا نام ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بغیر یہ محض ایک منافقانہ نقاب ہے، جسے وقت جلد یا بہ دیر چاک کر ہی دیتا ہے۔۔