پندرہ سال بعد پروگرام بولتا پاکستان کا زوردار چھکا

سن 2010 میں ہم نے آج ٹی وی کے سب سے زیادہ مشہور پروگرام بولتا پاکستان میں ایک سیگمنٹ اسلام آباد میں ناجائز تجاوزات کے حوالے سے کیا تھا۔ ہر صبح اُس دن کے پروگرام کے موضوع کے حوالے سے استاد محترم نصرت جاوید صاحب کی زیر صدارت ایک میٹنگ ہوا کرتی تھی جس میں پروگرام کے کو اینکر برادر عزیز مشتاق منہاس اور بطور پروگرام پروڈیوسر یہ خاکسار انتصار شریک ھوتا تھا۔ اس دن ایک سیگمنٹ ناجائز تجاوزات کے حوالے سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ میں نے اپنے کیمرہ مین کو ساتھ لیا اور پورے اسلام آباد کا دورہ کیا اور وہ تمام مقامات فلم بند کیے جہاں سڑکوں، فٹ پاتھوں، بازاروں اور عوامی مقامات پر ناجائز قبضہ تھا ۔ سیگمنٹ انتہائی مؤثر اور جاندار انداز میں نشر ہوا۔ اس کی بازگشت نہ صرف میڈیا بلکہ شہری حلقوں میں بھی سنائی دی۔ کچھ جگہوں سے عارضی طور پر تجاوزات ہٹائی بھی گئیں، اور پھر وقتی طور پر کچھ خاموشی چھا گئی۔

لیکن ہمارا وہ سیگمنٹ حقیقتا اتنا زوردار رھا کہ اس نے انتظامیہ کا پیچھا نہ چھوڑا۔ مسلسل انتظامیہ کے کانوں میں گونجتا رھا۔ بھوت بن کر ان کے پیچھے پڑگیا اور آخر کار انتظامیہ ہمارے اس سیگمنٹ میں ناجائز تجاوزات کے خلاف اٹھائی گئی آواز پر کان دھرنے پر مجبور ہو گئی۔ کیا ہوا اگر اس میں چودہ پندرہ سال لگ گئے تو ۔ مقصد تو کام ہونا ہے۔

آج، اس سیگمنٹ کے نشر ہونے کے چودہ پندرہ سال بعد جب میں جی نائن مرکز، کراچی کمپنی گیا تو منظر ہی بدل چکا تھا۔ بازار میں ایک عجیب سا سکون، ایک خاموشی، بلکہ یوں کہیے کہ ایک نظم و ضبط سا محسوس ہوا۔ مجھے یوں لگا جیسے کچھ کمی سی ہے، جیسے بازار کی روایتی رونق ماند پڑ گئی ہو۔ بیگم صاحبہ نے جب توجہ دلائی تو آنکھیں کھل گئیں۔ فٹ پاتھ صاف، برآمدے خالی، ٹھیلے اور ریڑھیاں غائب۔ اور ان کے بجائے وھاں عام لوگ، خواتین، بچے سکون سے چل پھر رہے ہیں تو بہت اچھا محسوس ہوا۔

اسی دوران ایک ویڈیو نظر سے گزری، بینک روڈ صدر راولپنڈی کی۔ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ پہچاننا مشکل تھا کہ یہ راولپنڈی کا صدر ہے یا دوحہ، قطر کا کوئی بازار۔ صفائی ستھرائی، سنگی ٹائلز، بیٹھنے کے لیے بینچز، اور سب سے بڑھ کر گاڑیوں کی مکمل پابندی۔ دل سے واہ نکل گئی۔

پھر ایک اور ویڈیو دیکھی جس میں موتی بازار راولپنڈی میں انتظامیہ باقاعدہ ایکشن میں نظر آئی۔ تجاوزات ہٹائی جا رہی تھیں، اور بازار کو اصل حالت میں بحال کیا جا رہا تھا۔ اسلام آباد تو ویسے ہی اب ایک بدلا بدلا سا شہر لگنے لگا ہے۔

مجھے ذاتی طور پر اس لیے بھی دلی اطمینان ہے کہ پندرہ سال پہلے "بولتا پاکستان” میں ہم نے اس سنگین مسئلے کو اجاگر کیا تھا۔ اور آج ھم کامیاب ہوگئے ۔ چودہ پندرہ سال بعد ھی سہی۔ دیر آید درست آید۔

آپ کچھ بھی کہتے رہیں ۔ کریڈٹ تو ہم تینوں کو ہی جاتا ھے ۔ جی ہاں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے