اپنے انقلابی خیالات، متواضع صفات اور مصلحانہ کردار کے سبب دنیا بھر میں مشہور، رومن کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس جن کا اصل نام خورخے ماریو برگولیو تھا، 88 برس کی عمر میں، طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔
پوپ فرانسس رومن کیتھولک چرچ کے پہلے لاطینی آمریکی رہنما تھے جو کہ طویل بیماری کے بعد چند روز قبل ہی صحتیاب ہوکر اسپتال سے ڈسچارج ہو گئے تھے، اپنی وفات سے محض ایک دن قبل پوپ فرانسس نے اتوار کو ایسٹر کے موقع پر لوگوں سے ملاقاتیں بھی کیں تھیں۔
پوپ فرانسس نے 2013 میں پوپ بینڈکٹ کے استعفے کے بعد پوپ کا عہدہ سنبھالا تھا، پوپ فرانسس اس سے پہلے ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس کے آرچ بشپ تھے۔
پوپ فرانسس گزشتہ کئی ماہ سے سخت علیل تھے اور 14 فروری کو سانس کی شدید تکلیف کے باعث اسپتال داخل کیا گیا تھا، نمونیا کے باعث 5 ہفتے اسپتال میں گزارنے کے بعد گزشتہ ماہ ویٹیکن لوٹے تھے۔
پوپ فرانسس کیتھولک کلیسیا کے 266 ویں رہنما تھے۔ وہ 13 مارچ 2013ء کو پوپ منتخب ہوئے تھے اور وہ پہلے غیر یورپی پوپ ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے۔ ان کی زندگی، شخصیت اور خیالات عالمی امن، بین المذاہب ہم آہنگی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔ پوپ فرانسس کی سادگی، ہمدردی، امن پسندی اور سماجی انصاف کے لیے کوششیں انہیں دنیا بھر میں ایک ممتاز اور قابل احترام شخصیت بناتی ہیں۔
پوپ فرانسس 17 دسمبر 1936ء کو بیونس آئرس، ارجنٹائن میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ایک ریلوے ملازم تھے، جبکہ ان کی ماں گھریلو خاتون تھیں۔ انہوں نے کیمسٹری کی تعلیم حاصل کی، لیکن 21 سال کی عمر میں مذہبی زندگی اختیار کر لی اور یسوعی فرقے (Jesuit Order) میں شامل ہوگئے۔ 1969ء میں انہیں باقاعدہ پادری مقرر کیا گیا اور اس کے بعد انہوں نے جرمنی میں فلسفہ اور الہیات کے شعبوں میں مزید تعلیم حاصل کی۔
پوپ فرانسس کو 2013ء میں پوپ بینیڈکٹ سولہویں کے مستعفی ہونے کے بعد، پوپ منتخب کیا گیا تھا۔ انہوں نے "فرانسس” کا نام اطالوی سنٹ فرانسس آف آسیسی کے نام پر اختیار کیا، جو کہ اپنے زمانے میں غریبوں اور فطرت کے محافظ کے طور پر مشہور تھے۔ یہ نام ان کی سادگی، غریب پروری اور سماجی انصاف کے لیے بے تحاشا جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔
پوپ فرانسس نے ویٹیکن کی شاہانہ روایات کو یکسر بدل دیا۔ وہ سادہ رہائش اختیار کرنے لگے تھے، اپنے کام خود کرتے تھے اور غریبوں کے ساتھ وقت گزارتے رہیں۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ "ایک حقیقی رہنما وہ ہوتا ہے جو کہ خدمت کرتا ہے، نہ کہ حکومت۔”
پوپ فرانسس نے معاشی ناانصافی، سرمایہ دارانہ استحصال اور امیر و غریب کے درمیان بڑھتے فرق پر ہمیشہ کھل کر تنقید کی۔ ان کے مطابق "ہماری معیشت غریبوں کو مار رہی ہے۔” اس طرح وہ پناہ گزینوں اور مہاجرین کے حقوق کے لیے بھی وقت بہ وقت پوری قوت سے آواز اٹھاتے رہے۔
پوپ فرانسس نے 2015ء میں زمین اور ماحول کے تحفظ کے لیے ایک ایجنڈا جاری کیا تھا جو کہ Laudato Si Cyclical کے نام سے مشہور ہے جس میں انہوں نے ماحولیاتی تحفظ پر زور دیا تھا اور عالمی رہنماؤں سے کاربن اخراج کم کرنے کی اپیل کی تھی۔
پوپ فرانسس نے اسلام، یہودیت اور دیگر مذاہب کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر بھی کافی گرم جوشی سے عالمی امن اور سلامتی کے لیے کام کیا ہے۔ وہ متواتر کہا کرتے تھے کہ "مختلف مذاہب کے درمیان احترام اور مکالمہ ہی عالمی امن اور سلامتی کی یقینی راہ ہے۔”
پوپ فرانسس نے 2019ء میں متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا اور وہاں”انسانیت اور بھائی چارے کے دستور” پر دستخط کیا تھا، جس میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ اتحاد کی ضرورت پر خاص زور دیا گیا تھا۔
پوپ فرانسس نے کیتھولک چرچ میں جنسی زیادتی کے متواتر اسکینڈلز کے خلاف بھی سخت اقدامات اٹھائے تھے۔ انہوں نے متاثرین سے باقاعدہ کھل کر معافی مانگی اور چرچ میں کافی اصلاحات لائے تھے۔
پوپ فرانسس نے متعدد تنازعات کے حل کے لیے ثالثی کی کوششیں بھی کئے تھے، جن میں شام اور روس یوکرین کے درمیان تنازعات پر امن اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی اپیل شامل ہے۔ اس طرح انہوں نے کیوبا اور آمریکہ کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں کردار ادا کیا تھا۔ اس طرح فلسطین اور اسرائیل کے درمیان بھی جاری الم ناک تنازعے کے خاتمے کے لیے مکالمے اور مذاکرات کرنے پر زور دیتے رہے۔ انہوں نے 2014ء میں ویٹیکن میں اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں کی مشترکہ دعا کا اہتمام کیا تھا، جو کہ ایک تاریخی اقدام تھا۔ چند ماہ قبل انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "یوکرین پر جنگ مسلط کرنے کی ذمہ داری صرف روس پر عائد نہیں ہوتی”۔
پوپ فرانسس کو اگرچہ زندگی میں بہت زیادہ پذیرائی ملی، لیکن کچھ روایتی کیتھولک ان کے لبرل خیالات پر تنقید بھی کرتے رہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چرچ میں ان کی اصلاحات بہت زیادہ تیز رہے۔
پوپ فرانسس ایک ایسے رہنما تھے جو کہ مذہب، سیاست اور معاشرت کی حدوں سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کرتے رہے۔ ان کی سادگی، ہمدردی اور امن و مفاہمت کے لیے مخلصانہ کوششیں انہیں جدید دور کا ایک مثالی رہنما بناتی ہیں۔ ان کا پیغام بڑا واضح اور دو ٹوک ہوتا تھا کہ”محبت، ہمدردی اور انصاف ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک بہتر دنیا کی طرف لے جاتا ہے۔”
پوپ فرانسس اپنے انقلابی، انسان دوست اور روادارانہ خیالات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور تھے۔ آئیے ان کے کچھ دلچسپ اور منفرد خیالات پر مختصر سی روشنی ڈالتے ہیں
ماحولیات کی حفاظت
پوپ فرانسس ماحولیات کے تحفظ کو ایک اہم اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے "Laudato Si'” نامی ایک انسائیکل جاری کیا تھا جس میں انہوں نے زمین کو تحفظ دینے کی اہمیت پر خاص زور دیا تھا۔
غربت کے خلاف جنگ
پوپ فرانسس امیر اور غریب کے درمیان فرق کو کم کرنے کے زبردست حامی تھے اور اکثر و بیشتر سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید کرتے رہے، جس کو وہ "عدم مساوات” کا بڑا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔
پناہ گزینوں کا دفاع
پوپ فرانسس نے یورپ سمیت دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے مسلسل آواز اٹھائی اور پُرزور انداز میں کہا کرتے تھے کہ "مہاجرین کو مکمل انسانی وقار کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے”۔
طلاق یافتہ افراد کے لیے رحم
پوپ فرانسس روایتی کیتھولک تعلیمات کے برعکس، طلاق یافتہ اور دوبارہ شادی شدہ افراد کے ساتھ چرچ میں زیادہ احترام اور مہربانی سے پیش آنے کی تاکید بھی کرتے تھے۔
سوشل میڈیا پر تنقید
پوپ فرانسس سوشل میڈیا کو "غلط معلومات اور نفرت پھیلانے کا ذریعہ” قرار دیتے تھے اور لوگوں سے باہم حقیقی انسانی تعلقات استوار کرنے کی اپیل کرتے رہے۔
خواتین کے کردار بڑھانے کے حامی
پوپ فرانسس نے چرچ میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کی بات بار بار کی تاہم وہ خواتین کو پادری بنانے کے حق میں نہیں تھے۔
سائنس اور مذہب کے درمیان ہم آہنگی کے قائل تھے
پوپ فرانسس کا ماننا تھا کہ "سائنس اور مذہب ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں” اور بگ بینگ جیسے نظریات کو خدا کے تخلیقی عمل کا حصہ قرار دیتے تھے۔
سادہ طرزِ زندگی کی پسندیدگی
پوپ فرانسس ایک بالکل سادہ طرز زندگی گزارتے تھے، عام گاڑی استعمال کرتے تھے اور شاہی رہائش گاہ (Apostolic Palace) کے بجائے ایک معمولی رہائش کو ترجیح دیتے تھے۔
بین المذاہب مکالمے کے پرزور حامی
پوپ فرانسس اسلام، یہودیت اور دیگر مذاہب کے درمیان مستقل مکالمے کو فروغ دینے کے حامی تھے۔ انہوں نے "بھائی چارے کا عالمی دن” منانے کی تجویز دی تھی تاکہ مختلف مذاہب کے لوگ باہم مل کر امن، سلامتی اور احترام کو فروغ دیں۔
اسلام ہمیں تمام اچھے کاموں، لوگوں اور چیزوں کی قدر سیکھاتا ہے خواہ ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ اچھائی انسانوں کی ضرورت بھی ہے اور ان کی قدر دانی کی مستحق بھی۔ ہم اگر واقعی زندگی میں سچائی کے طالب ہیں تو ہمیں اچھائی کو اپنے دل میں جگہ دینا پڑے گا بغیر کسی حرج یا تعصب کے۔ آنجہانی پوپ فرانسس عالمی سطح کے رہنماؤں میں ایک اچھے انسان تھے جنہوں نے عالمی امن، رواداری، ہمدردی اور مفاہمت کے لیے ہمیشہ اپنی استطاعت کے مطابق کوششیں کیں۔ پوپ فرانسس کے خیالات گو روایتی کیتھولک نظریات سے کافی کچھ مختلف تھے تاہم وہ نوجوانوں، خواتین اور جدید ذہن رکھنے والے لوگوں میں بے انتہا مقبول تھے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب دنیا بری طرح جنگوں اور عدم برداشت کے لپیٹ میں چلی گئی ہے پوپ فرانسس جیسے انسان کی وفات ایک بڑے نقصان کا باعث ہے۔ اللہ ان کی روح کو شاد رکھے۔