نسرین انجم بھٹی اس طرح ہم سے جدا ہوئیں

زبیر رانا سے نظریاتی تعلق تو لایل پور میں انیس سو چھیاسی کے زمانے سے تھا . جب کبھی لایل پور آتے ان سے فضل حسین راہی کی وساطت سے ملاقات ہوتی تو صحافت کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا . دو ہزار تین اور چار لاہور میں میری آمد کے ابتدائی سال تھے جن میں زبیر رانا نے ایک استاد کی حثیت سے مجھے رہنمائی دینے کے ساتھ اپنے فیملی ممبر کی حثیت بھی دی تو آپی نسرین جن کی شاعری کا میں ضیائی دور سے مداح تھا سے ایک فیملی ممبر کے طور پر رشتہ استوار ہوا جو ان کی بیماری کے آخری ایام تک قایم رہا .

 

 

میرے بیٹے سبط حسن کے اسکول میں داخلہ کے لیے آپی کئی دن تک میرے ساتھ مختلف اسکولوں کا وزٹ کرتی رہیں . انھیں مجھ سے زیادہ اس کے داخلہ کی فکر تھی . ان کی طرف سے محبت کا یہ ایسا اظہار تھا جو خونی رشتوں سے بھی نہیں ملتا . زبیر رانا کی وفات ان پر سکتہ طاری کر گئی لیکن پھر انہوں نے مرحوم کی آخری کتاب کی اشاعت کو ممکن بنانے کے لیے غم کو طاقت بنا کر زندہ رہنے کی تگ و دو شروع کر دی .اس دوران ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ کچھ کم ہو گیا … پھر ایک دن گزشتہ سال اپریل کے ابتدائی دنوں میں زاہد نبی نے یہ اندوہناک خبر دی کہ آپی کو کنیسر ہے اور ڈاکٹرز نے انھیں چند ہفتوں کا مہمان قرار دے دیا ہے . اسی وقت ان کی تیمار داری کے گیا تو نیم بےہوشی کی کیفیت میں تھی لیکن مجھے پہچان لیا اور میری اہلیہ کی بیماری کے حوالے سے فکر مندی کا اظہار کرنے لگیں .

 

 

اس ملاقات میں فیس بک پر ان کا پیج بنانے کا فیصلہ ہوا تو مجھے اور زاہد نبی کو ہدایت کی کہ سوشل میڈیا پر ان کی کوئی ایسی تصویر نہ دی جاۓ جس میں وہ بیمار . شکستہ حال یا دکھی دکھائی دیں . مشکل ترین وقت میں بھی ان کی رجائیت پسندی، حسن ذوق اور استقامت انتہائی متاثر کن تھی . اس کے بعد ان سے دو تین ملاقاتیں ہوئیں جس دوران ان کے علاج میں ایک بڑی پیش رفت ہوئی جس کی وجہ سے ان کی زندگی بچانا ممکن ہو گیا تھا . انمول ، سرجی میڈ اور سی ایم ایچ ہسپتال میں ان کا علاج بتدریج حیران کن نتائج دینے لگا اور ان میں دن بدن بہتری آنے لگی .

 

 

مئی میں میری اہلیہ کی حادثاتی موت ہو گئی تو میرا آپی سے رابطہ منقطع ہو گیا . ان کی تعزیتی فون کال آئی۔  میرے بارے میں ازحد فکر مند تھیں . میرے صدمہ کا دورانیہ طویل ہوتا گیا لیکن اس دوران جب بھی زاہد نبی ملتے تو ان سے آپی کے علاج کے حوالے سے معلومات ملتی رہتیں . آپی کے بھائی سہراب بھٹی صاحب جو ان دنوں لاہور میں مقیم تھے ۔ ان سے فون پر آپی کی حالت اور علاج کے ضمن میں بات ہوتی تو بھٹی صاحب بتاتے کہ آپی بہتر ہو رہی ہیں لیکن مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اب مزید نا ممکن ہوتا جا رہا ہے . ان حالات میں آپی کی زندگی کو صرف مالی وسائل ہی بچا سکتے تھے .جن کے حصول کے کوششیں شروع کر دی گیں . زاہد نبی شب و روز مختلف صاحبان اختیار و وسائل سے رابطہ میں تھے . آپی کے پیج پر بھی دوست احباب سے اپیل کرتے رہے .

 

 

پی پی پی سے آپی اور زبیر رانا صاحب کی وابستگی کی بنا پر ہم سب یہ توقع رکھتے تھے کہ پارٹی قیادت آپی کی زندگی بچانے کے لیے کوئی کردار ضرور ادا کرے گی . ہماری امید اس وقت اور بڑھ گئی جب پی پی پی کے مرکزی رہنما چوہدری منظور احمد آپی کی تیمار داری کے لیے تشریف لائے اور بلاول بھٹو کی طرف سے نیک خواہشات بھی ہمراہ لائے .چوہدری صاحب نے ذاتی دلچسپی سے آپی کے لیے مالی امداد کی درخواست پارٹی ہائی کمان تک پہنچا دی لیکن خاموشی کے سوا کچھ نہ ملا . اسی دوران میں نے ذاتی طور پر جہاں آرا وٹو سے بھی درخواست کی لیکن موصوفہ نے بعد ازاں نہ فون سنا اور نہ میسج کا جواب دینا پسند کیا . زاہد نبی کی زبانی پنجاب حکومت کی بے حسی بھی آشکار ہوتی رہتی …………. پھر وہی ہوا جو ہونا تھا ، ہم سب کی آپی علاج کے لیے روپے نہ ہونے کی وجہ سے ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیں

آپی کی وفات کے ایک دن بعد مجھے پی پی پی کے ایک رہنما کی کال آئی وہ فخر سے سرشار ہو کر فرما رہے تھے ` آپی نسرین کی وفات پا پارٹی کی قیادت بہت دکھ کا اظہار کر رہی تھی  میں نے اپنی کاوشوں سے آپی کے لیے بلاول اور زرداری کا تعزیتی پیغام جاری کروا دیا ہے `

کل ماتم بے قیمت ہو گا آج ان کی توقیر کرو
دیکھو خوں جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں افسانے لوگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے