اب تو نوابزادہ نصر اللہ خان بھی نہیں
سبوخ سید
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے، میں سوچ رہا تھا کہ یہ ملک کبھی ایسی شخصیات سے مالا مال تھا جن کے ایک اشارے پر قوم کے تمام رنگ، نسل، طبقے اور طبقات ایک جھنڈے تلے جمع ہو جایا کرتے تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان جیسے بزرگ سیاستدان قومی یکجہتی کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ اُنہیں سن کر اختلاف رکھنے والا بھی احتراماً خاموش ہو جاتا۔ وہ پاکستان کی سیاست میں اتفاقِ رائے کا استعارہ تھے—حکمت، تدبر اور فہم کا ایسا امتزاج کہ اختلاف کے باوجود سب اُن کی قیادت پر اعتماد کرتے۔
اسی طرح بے نظیر بھٹو، پروفیسر غفور احمد، حافظ حسین احمد، شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد اور حکیم محمد سعید جیسے لوگ بھی تھے، جو بدگمان لوگوں کو قریب لے آتے تھے۔ یہ ہم آہنگی صرف سیاست تک محدود نہ تھی۔ ایک وقت تھا جب عسکری ادارے بھی ایسے قومی کرداروں کو متحرک کرتے جو معاشرتی ہم آہنگی اور ادارہ جاتی ہمفکری کو فروغ دے سکتے تھے۔ سیاسی جماعتوں میں وہ قائدین تھے جن پر اختلاف کے باوجود اندرونِ خانہ قوم پرستی، اتحاد اور سنجیدگی کا جذبہ غالب رہتا تھا۔
لیکن آج نہ سیاست میں وہ مزاج باقی رہا، نہ پارلیمان میں وہ چہرے جو اپنے تدبر، وقار اور غیر جانبداری سے حالات کو بدل سکتے ہوں۔ اگر کوئی ایسی شخصیت کہیں موجود بھی ہے، تو میڈیا، بیانیے کی تقسیم، اور مسلسل کردارکشی نے اُسے اس قدر متنازع بنا دیا ہے کہ اس کی آواز نقارخانے میں طوطی بن کر رہ گئی ہے۔ہم آج ایسی قیادت کو ترس رہے ہیں۔
وہ جماعتیں، جو کبھی تحریکیں اٹھاتی تھیں، اب اندرونی خلفشار اور قیادت کے بحران کا شکار ہیں۔ سیاست میں وہ دم خم نہیں رہا، نہ ہی پارلیمان میں وہ سنجیدہ آوازیں باقی رہیں۔ جو شخصیات موجود بھی ہیں، انہیں اس قدر متنازع بنا دیا گیا ہے کہ ان کی بات سننے والا کوئی نہیں بچا۔
یہی حال میڈیا کا ہے۔ وہ میڈیا جو ماضی میں قوم کو جوڑنے کا کردار ادا کرتا تھا، آج خود تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ نمایاں چہرے یا تو کھل کر سیاسی صف بندی کا حصہ بن چکے ہیں یا مسلکی، فکری اور نظریاتی تعصبات میں الجھ کر اپنی غیر جانبداری کھو چکے ہیں۔ ان کے تجزیے، تبصرے اور بیانیے کسی اتحاد کی طرف نہیں بلکہ مزید تقسیم کی طرف لے جاتے ہیں۔
ایسے میں ضرورت ہے کہ میڈیا سے وابستہ ان افراد کو آگے لایا جائے جو اعتدال پسند، ذمہ دار، اور سنجیدہ سوچ رکھتے ہوں۔ وہ جو آگ پر تیل ڈالنے کے بجائے اسے بجھانے کی فکر کریں۔ جو معاشرے کو جوڑنے کی سوچ رکھتے ہوں، سنوارنے کا ہنر جانتے ہوں۔
علماء کرام—چاہے کسی بھی مذہب یا مسلک سے ہوں—ہمیشہ اس ملک کا ایک مضبوط اخلاقی ستون رہے ہیں۔ لیکن افسوس، ان میں سے کئی نے خود کو اس قدر متنازع بنا لیا ہے کہ ان کے بیانات بھی تقسیم کا باعث بن جاتے ہیں۔ ایسے علما جو انسان دوستی، عدل، اور خیر کے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں، انہیں آگے آنا چاہیے۔ ایک ایسا وفد یا مجلس قائم کی جائے جو اختلافات سے بالاتر ہو کر، خالصتاً قومی یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے کام کرے۔
میرا ماننا ہے کہ ایسی شخصیات اب بھی موجود ہیں—خاموش ہیں، پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ ہمیں انہیں سامنے لانا ہوگا۔ ہمیں انہیں اعتماد دینا ہوگا کہ وہ اس نازک وقت میں قوم کی رہنمائی کریں۔ ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر، صرف قومی مفاد میں بات کریں، لوگوں کو قریب لائیں، مطالبات سامنے رکھیں، اور ایسا بیانیہ تشکیل دیں جس سے اتفاق، یگانگت اور یکجہتی کی فضا پیدا ہو۔
اگر آج بھی ہم نے یہ موقع گنوا دیا، تو شاید کل ہمیں وہ مہلت نہ ملے جو آج ہمارے پاس ہے۔ ہمیں سیاست، میڈیا، مذہب، اور سماج—ہر سطح پر اُن افراد کی تلاش اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو اس وقت کو سنوارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ہم آج بھی نہ جاگے، تو کل شاید یہ آوازیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں۔
زندہ لوگوں میں، میں سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب، راجہ ظفر الحق صاحب، اور مولانا فضل الرحمان صاحب کو ایسی شخصیات سمجھتا ہوں جو چاہیں تو بکھری ہوئی قیادت کو ایک جگہ جمع کر سکتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی ، چوہدری شجاعت حسین ، ڈاکٹر عبدالمالک ، کافی عرصے سے میں رانا ثناء اللہ صاحب، خواجہ سعد رفیق صاحب، اور قمر زمان کائرہ صاحب جیسے لوگوں کا اندازِ فکر بھی خوشگوار حد تک تبدیل ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ اسی طرح مذہب میں مفتی تقی عثمانی ، مفی منیب الرحمان ، علامہ ساجد نقوی ، جاوید احمد غامدی اور علامہ طاہر القادری جیسی شخصیات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ یہ شخصیات بھی اس کام کی اہمیت کو سمجھیں . اگر یہ شخصیات اس مشکل وقت میں قوم کی رہنمائی نہیں کر سکتے تو ان کی قبروں کے کتبوں پر ایک ناکام کہانی کے کردار کے سوا اور کیا لکھا جانا چاہیے .
اب کسی نبی نے نہیں آنا۔ جو کچھ کرنا ہے، وہ ہمیں ہی کرنا ہے۔ ایک مشہور چینی کہاوت ہے:
"اگر آپ نے ہزار میل کا سفر طے کرنا ہے تو پہلا قدم اٹھانا ہوگا۔”
تو پھر انتظار کس بات کا ہے؟
درست سمت میں پہلا قدم اٹھائیں۔
اسے بھاری پتھر سمجھ کر چومیں نہیں—
اسے اٹھائیں، اور چل پڑیں۔
شاید اسی قدم سے، ہم جیسے مایوس لوگوں کی زندگی میں کسی خوشگوار سفر کا آغاز ہو جائے۔