تاریخ کی تلخ گلیوں میں اگر کسی نے سب سے زیادہ سچ کا گلا گھونٹا ہے تو وہ ریاستی پروپیگنڈا ہے۔ سچائی کو جھوٹ کے چوغے میں لپیٹ کر دشمنی کی مورت بنا دینا، اپنی عوام کو فریب دے کر جنگ کی طرف دھکیل دینا، اور عالمی برادری کو آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنی بربریت کو جواز فراہم کرنا—یہی وہ حربہ ہے جسے فالس فلیگ آپریشن کہتے ہیں۔۔۔
فالس فلیگ آپریشن، بظاہر کوئی پیچیدہ عسکری اصطلاح لگتی ہے، مگر درحقیقت یہ وہ سیاسی دھوکہ ہے جس میں ایک ریاست یا طاقتور ادارہ ایسی جعلی کارروائی کرتا ہے جس کا الزام کسی اور پر ڈال کر اپنے مفاد حاصل کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا خنجر ہے جو دشمن کے ہاتھ میں تھما کر خود چھپ کر وار کیا جاتا ہے۔ آج اس اصطلاح کی بازگشت ایک بار پھر بھارتی زیر اتنظام مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں میں گونج رہی ہے، جہاں پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کا الزام بغیر کسی تحقیقات کے پاکستان پر ڈال دیا گیا۔
پہلگام حملہ، بادی النظر میں، ایک ظالمانہ اور قابل مذمت واقعہ ہے۔ انسانی جان، خواہ کسی قوم، مذہب یا رنگ سے تعلق رکھتی ہو، مقدس ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ بھارت، جو بقول خود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، آخر کس بنیاد پر فوری طور پر انگلی پاکستان کی طرف اٹھاتا ہے؟ کیا یہ وہی پرانا نسخۂ کیمیا نہیں جسے دہائیوں سے کشمیر کے لہو کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟؟؟
بھارت کی تاریخ فالس فلیگ آپریشنز کی زندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ چاہے وہ 2001 میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہو، یا 2008 کا ممبئی حملہ، ہر بار پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے بھارت کے میڈیا چینلوں اور سیکیورٹی اداروں نے ایک طے شدہ بیانیہ پیش کیا۔ بعد ازاں ان واقعات کے کئی گوشے خود بھارتی صحافیوں اور محققین کی تحقیق سے مشکوک ثابت ہوئے۔
بھارت کی جانب سے وقتاً فوقتاً فالس فلیگ آپریشن کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا اپنی عوام کو جذباتی طور پر ہانکنا،عالمی برادری میں پاکستان بارے گمراہ بیانیہ تشکیل دینا،کسی خفیہ یا جارحانہ پالیسی کے لیے میدان ہموار کرنا ہے۔
پہلگام حملہ بھی اسی بیانیے کا تسلسل محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔ سیاحوں پر حملہ، جن میں سے اکثر ہندو یاتری تھے، ایک ایسا واقعہ ہے جس سے بھارت باآسانی پاکستان کو مذہبی انتہاپسندی کا چہرہ پہنا کر عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ریاستیں اپنے مفادات کے لیے فالس فلیگ آپریشنز کا استعمال کرتی آئی ہیں۔ 1933 میں ہٹلر نے جرمن پارلیمنٹ کو نذر آتش کر کے الزام کمیونسٹوں پر ڈالا اور پھر عوامی جذبات کو کیش کرتے ہوئے آمرانہ اختیارات حاصل کیے۔ 1964 میں امریکہ نے ویتنام جنگ میں کودنے کے لیے گلف آف ٹانکن واقعے کو بنیاد بنایا، جو بعد ازاں خود ساختہ ثابت ہوا۔ یہی فارمولا آج بھارت کشمیر میں آزما رہا ہے۔۔۔۔
کشمیر، جو پہلے ہی کئی دہائیوں سے ظلم و جبر کی چکی میں پس رہا ہے، وہاں اس طرح کی فالس فلیگ کارروائیاں کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشتگردی سے جوڑنے کی ایک شعوری کوشش ہوتی ہیں۔ اس سے نہ صرف مقامی تحریک کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ پاکستان کو عالمی تناظر میں بدنام کرنے کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔
پاکستان نے پہلگام واقعے پر فوری مذمت کی، جسے بھارت نے نظرانداز کرتے ہوئے الزامات کی بوچھاڑ جاری رکھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی غیر جانبدار تحقیقات کی جائے، تو کیا بھارت تیار ہے؟ اگر وہ شفافیت پر یقین رکھتا ہے تو اقوام متحدہ یا کسی تیسرے فریق کی نگرانی میں تفتیش کیوں نہیں کرواتا؟ جواب واضح ہے اس لیے کہ اسے سچ سے نہیں پروپیگنڈا سے غرض ہے۔۔۔
عالمی برادری کو بھی اب چاہیے کہ وہ ان فالس فلیگ کارروائیوں کا سنجیدہ نوٹس لے۔ کسی ملک کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنی سیاسی چالوں کے لیے انسانی جانوں سے کھیلے، جھوٹے جواز بنا کر جنگی فضا قائم کرے، اور پھر عالمی امن کے جھوٹے دعوے بھی کرتا پھرے۔۔۔۔
آخر میں یہ سوال ہمیں خود سے ضرور کرنا چاہیے کہ اگر ریاستیں خود فریبکاری پر اتر آئیں، تو پھر انصاف کہاں سے آئے گا؟ اگر حقائق کو مسخ کر کے قوموں کو آپس میں لڑایا جائے، تو امن کی امید کیوں کی جائے؟ اور اگر ہر خون کے دیئے کو کسی اور کے دامن پر ڈال کر اپنی قبا کو صاف سمجھا جائے، تو سچائی کا جنازہ کون اٹھائے گا؟