نواز شریف کتاب کیوں نہیں لکھتے

پاکستان کی سیاسی اور صحافتی تاریخ میں کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو محض خبروں تک محدود نہیں رہتیں، بلکہ خود تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ حاجی نواز رضا بھی انہیں میں سے ایک ہیں۔ ایوب آمریت کے خلاف طلبہ تحریک میں بھرپور حصہ لینے کے بعد وہ صحافت کے میدان میں اترے اور پھر اس شعبے کے اندر ہی اپنی ایک منفرد پہچان بنائی۔

نوائے وقت سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کرنے والے نواز رضا نے نہ صرف ایک سینئر صحافی کے طور پر اپنا لوہا منوایا بلکہ پریس کلب کی سیاست میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ آج کل وہ روزنامہ جنگ میں کالم نویسی کے ذریعے قارئین تک اپنا مشاہدہ، تجربہ اور تجزیہ پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے وقتاً فوقتاً اہم سیاسی شخصیات اور موضوعات پر کتابیں تحریر کی ہیں، جن میں چوہدری نثار علی خان پر لکھی گئی کتاب خاصی نمایاں ہے۔

نواز رضا ان معدودے چند صحافیوں میں شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کے سیاسی عمل، شخصیات، حکومتوں اور جماعتوں کو قریب سے دیکھا اور ان کے نشیب و فراز کو اپنی تحریر کا حصہ بنایا۔ موجودہ دور میں جب سیاست محض بیانیے کے گرد گھوم رہی ہے، وہ اہم سیاسی شخصیات پر کتابیں لکھ رہے ہیں تاکہ آئندہ نسل کو ایک دستاویزی حوالہ مل سکے۔

اسی تناظر میں جب ہم میاں نواز شریف کو دیکھتے ہیں، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ آج پاکستان کے سب سے تجربہ کار اور جہاں دیدہ سیاستدان ہیں، لیکن ان پر لکھی گئی کتب نہایت کم ہیں۔ اگر ہم تقابلی جائزہ لیں تو پیپلز پارٹی پر سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو خود لکھنے والے تھے، کتاب دوست تھے، اور ان کے پیروکاروں نے بھی اپنی سیاسی جدوجہد کو قلمبند کیا۔

جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی ایک بلند پایہ مفکر تھے جن کی فکر نے پوری مسلم دنیا کو متاثر کیا۔ جماعت اسلامی سے وابستہ کارکنان نے اپنی جماعت کی جدوجہد کو تحریری شکل دی۔ اسی طرح اے این پی کے رہنماؤں، خصوصاً باچا خان اور اجمل خٹک نے بھی اپنی فکری میراث محفوظ رکھی۔

مگر مسلم لیگ (ن) کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ جماعت زیادہ تر “ڈرائنگ روم” کی سیاست تک محدود رہی۔ اگرچہ بعض ادوار میں اس نے بھرپور عوامی تحریکیں بھی چلائیں، لیکن اس کی فکری اور تحریری روایت کمزور رہی۔ میاں نواز شریف نے اسے عوامی سیاست کی طرف ضرور مائل کیا، جی ٹی روڈ کی سیاست کو فروغ دیا، مگر شہباز شریف کے دور میں یہ جماعت دوبارہ محدود دائرے میں سمٹ گئی۔

آج میاں نواز شریف کے سینے میں تاریخ کے ان گنت راز پوشیدہ ہیں، لیکن وہ خاموش ہیں۔ حالانکہ وہ ان دنوں نسبتاً فراغت میں ہیں، مگر اپنی زندگی، جدوجہد اور مشاہدات کو قلمبند کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ یہی حال راجہ ظفر الحق جیسے سینئر سیاستدانوں کا ہے، جو اپنی یادداشتیں تحریر کرنے سے گریزاں ہیں۔

ایسے میں اگر کوئی ہماری سیاسی تاریخ کو محفوظ کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے تو وہ حاجی نواز رضا ہیں۔ ان کی کاوشوں سے نہ صرف حال کے طالب علم مستفید ہوں گے بلکہ مستقبل کے محققین کو بھی ایک معتبر حوالہ میسر آئے گا۔ ہمیں ان کی تحریروں کو سنجیدگی سے پڑھنا اور محفوظ کرنا چاہیے، کیونکہ تاریخ صرف واقعات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ان کے پس منظر اور زاویوں کو سمجھنے کا نام ہے — اور یہ کام صرف وہی انجام دے سکتا ہے جو خود بھی تاریخ کا حصہ ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے