محبت: ایک جاوداں جذبہ جو انسانوں کے لیے بے حد ضروری ہے

محبت اس شیریں ترین احساس کو کہا جاتا ہے جس کے سبب کوئی بندہ کسی دوسرے کو حد درجہ پسند کرنے لگتا ہے۔ یہ قدرت کا پیدا کردہ وہ بے مثال جذبہ ہے جو دلوں کو کشادگی، روحوں کو آسودگی، ذہنوں کو روشنی، نگاہوں کو سرشاری، جذبوں کو نرمی اور رویوں کو شائستگی عطا کرتا ہے۔

حال اور ماضی دونوں گواہ ہیں کہ انسان نے ہر اچھا کام محبت کی حرارت سے تحریک پا کر ہی انجام دیا ہے۔ نفرت جب بھی انسان کو نشانے پر لیتی ہے تب صرف محبت ہی حفاظت کو دوڑ کر آتی ہے۔ شاعروں اور ادیبوں نے اکثر و بیشتر محبت کو دکھ درد کا باعث قرار دے دیا ہے لیکن یہ درست نہیں اگر وہ زیادہ گہرائی سے سوچنے لگ جائیں تو ان پر یقیناً واضح ہو جائے گا کہ محبت بے شمار دکھوں کا مداوا بھی ہے۔

معروف امریکی مبلغ بشپ مائیکل کیوری نے چند برس قبل برطانوی شہزادے ہیری کی شادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "کائنات میں ازل سے اچھائی، سچائی، درستگی اور توانائی کا بنیادی سرچشمہ محبت ہی ہے، محبت زندگی گزارنے کے لیے ایک روشن راستہ ہے، محبت ایک صحت مندانہ رویہ ہے اور یہی وہ چیز ہے جو کہ رشتوں کو استحکام اور باہمی تعلقات کو حد درجہ پائداری بخشتی ہے”۔ اس بیان کا لفظ لفظ حقیقت کا ترجمان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محبت ہی وہ جوہری خوبی ہے جو بندے کو بہتری سے ہر دم جوڑتی ہے جبکہ خرابی سے مسلسل اسے روکے رکھتی ہے۔

محبت کا جوہر اگر چہ ایک ہی ہے لیکن اس کے مظاہر بے شمار ہیں یعنی نظریاتی، قومی، فطری، سماجی، جذباتی، ذوقی اور صنفی محبتیں وغیرہ۔ ان تمام محبتوں کی انسان کو وقت بہ وقت اور موقع بہ موقع ضرورت ہوتی ہیں۔ یہی محبتیں مختلف موقع و محل کے اعتبار سے قلب و نظر پر وارد ہوتی رہتی ہیں اور یوں زندگی کو فعال اور خوش گوار رکھتی ہیں۔ زندگی کو خوبصورت، بامعنی، پرجوش، متوازن اور محفوظ بنانے کے لیے انہیں محبتوں سے حضرت انسان نے پل پل کام لیا ہے۔ محبت اگر ایک لمحے کے لیے بھی زندگی سے مائنس ہو جائے تو بخدا یہ گزارنے کی قابل نہ رہے۔

کائنات میں محبت کا نقطہ آغاز اللہ تعالیٰ کی ذاتِ با برکات ہے کیونکہ کائنات، کائنات میں پھیلی بے شمار مفید، مرغوب اور ضروری اشیاء، خود انسان اور انسانی کمالات سارے اس کی تخلیق ہے، انسان نے جب سے اس کائنات میں قدم رکھا تو اس نے سب سے پہلے اپنے رب کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ اس عظیم الشان کائنات کو تخلیق کرنے والا لازم کوئی ہے تو اسے بے اختیار خالق ارض و سماء سے محبت ہوگئی۔ یہ جو ایمان اور اطمینان کے زمزمے ہیں، یہ جو عاجزی اور انکساری ہے، یہ جو اطاعت گزاری اور وفا شعاری ہے، یہ جو خلوص اور والہانہ وابستگی ہے، یہ جو نظم و ضبط ہے، یہ جو سرشاری اور خود سپردگی ہے، یہ جو جھکنا ہے، یہ جو گڑگڑانا ہے، یہ جو ادب اور خاموشی سے کھڑا ہونا ہے یہ جو خوشی میں اس کی یاد آرہی ہے یہ جو پریشانی کے عالم میں ہونٹوں سے لفظ دعا بن کر چلکتی ہے یہ سارے رویے آخر کیا ہیں؟ یہ دراصل اس والہانہ محبت ہی کے مختلف مظاہر ہیں جس کے انسان کی فطرت میں اچھی طرح آمیزش ہوگئی ہے۔

پیغمبر انسانی تاریخ کے وہ بلند تر، پاک باز، برگزیدہ اور منتخب انسان ہوتے ہیں جنہوں نے انسان کو اس کے رب کا سیدھا راستہ دکھایا ہیں۔ انسان اندرونی محبت سے معمور ہو کر اس درست راستے پر چلنے کے لیے آمادہ اور تیار تو ہوتا ہے لیکن اسے بیرونی ہدایت کی بھی ضرورت پڑتی ہے تاکہ اس پر سیدھے راستے کے نظری اور عملی نقش و نگار واضح ہو۔ یہ مقدس ترین خدمت ہر دور اور مقام پر اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے کما حقہ انجام دیا ہے۔ اس تناظر میں پیغمبر تمام انسانوں کے سب سے بڑے محسن قرار پاتے ہیں جنہوں نے نہ صرف انسان کو اپنے رب کی منشاء سے آگاہ کیا بلکہ انسانوں کو باہمی تعلقات پورے خلوص اور خیر خواہی سے نبھانے کی تربیت بھی دی ہے۔ پیغمبروں نے اپنے اعلی اخلاق اور بلندتر کردار سے وہ خوبصورت نمونہ قائم کیا ہے جو رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے بہترین رہنمائی انجام دیتا رہے گا۔

انسان اپنے پہلی ہی سانس سے ایک خاندان کے ساتھ جڑ جاتا ہے جہاں اس کے والدین، بہن بھائی اور دوسرے عزیز و اقارب موجود ہوتے ہیں جو کہ نہ صرف ہمیشہ اس سے غیر مشروط محبت اور شفقت کا سلوک روا رکھتے ہیں بلکہ یہ دائمی ساتھ زندگی کے آخری سانس تک لگا تار قائم بھی رہتا ہے۔ خاندان مختلف رشتوں سے مل کر بنتا ہے اور ایک فرد کو وہ سب کچھ فراہم کرتا ہے جنہیں اسے زندگی کے لمبے سفر میں ضرورت پیش آتی ہے۔ محبت کا سب سے پہلا مظاہرہ ایک فرد اپنے خاندان میں دیکھتا ہے اور خاندان ہر فرد کو معاشرے کا ایک فعال اور باکردار حصہ بننے کے لیے مقدور بھر تیار بھی کرتا ہے۔

ایک فرد کی زندگی میں جو اہمیت خاندان کی ہوتی ہے عین وہی اہمیت ایک قوم کے لیے ملک کی ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے قوموں کے لیے مذہب سے بہتر کوئی رہنما اور ریاست سے بڑھ کر کوئی خادم میسر نہیں۔ ایک قوم کو ترقی، امن خوشحالی، آزادی، خودمختاری اور کامیابی کے لیے زیادہ تر امکانات اپنے وطن میں ہی میسر آتے ہیں۔ وطن سے محبت کچھ تو فطری ہوتی ہے جو ہر بندہ اپنے دل کی گہرائیوں میں کسی نہ کسی صورت محسوس کر رہا ہے لیکن کچھ ارادی محبت بھی وطن کو چاہیے یہی محبت دراصل وطن کے لیے لازوال داستانیں رقم کرنے پر آمادہ رکھتی ہے۔ دنیا کی خوشحال اور ترقی یافتہ اقوام اپنے اپنے ممالک کی بدولت اس مقام تک پہنچی ہیں۔

ایک محبت وہ بھی ہے جو کسی ایک کو دوسرے سے ہو جاتی ہے اس کے محرکات میں علم و فضل، صلاحیت و قابلیت، سیاست و قیادت، خلوص اور ہمدردی، شخصیت و کردار اور حسن و جمال کارفرما رہتے ہیں ایسی محبت کی بھی زندگی میں بے انتہا اہمیت ہوتی ہے اسی محبت کی بدولت دور کے لوگ قریب آتے ہیں جبکہ مطلق افراد ایک دوسرے کے لیے بے حد مانوس اور مرغوب ٹھہر جاتے ہیں ایسی محبتوں نے تاریخ کا دھارا بدلنے میں بنیادی کردار ادا کیے ہیں۔ یہ جو دنیا میں طرح طرح کی شہرتیں اور مقبولیتیں قائم ہیں اور طرح طرح کی کہانیاں پائی جاتی ہے یہ سب کچھ محبت کے دم قدم سے قائم ہیں۔

مختلف اقدار، اخلاق، جذبات، تہذیبیں، اقوام، قبائل، ملک اور خاندان دراصل محبت ہی کی بدولت معرضِ وجود میں آئیں ہیں۔ محبت میں پانے اور کھونے دونوں طرح کے تجربات کا امکان برابر ہوتا ہے۔ اسی لیے تو مشہور ہے کہ محبت صرف پانے کا نہیں بلکہ کھونے کا نام بھی ہے لیکن یاد رکھے کھونے سے لگنے والے زخموں کا علاج صبر اور برداشت سے بہر صورت ممکن ہے اور یہ بھی یاد رکھنے کی قابل بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے ہمارے تصور سے بھی کہیں زیادہ وسیع و عریض ہیں، کھونے کے ایک دو یا زیادہ صدموں سے ٹوٹنا قطعاً نہیں چاہیے۔ یقین کریں کھونا صرف آج کا مسئلہ ہے اور وہ کل زیادہ دور نہیں ہوتا جس میں پانے کو بہت کچھ موجود ہوں گے۔

خالق کائنات نے یہ جہاں ہزاروں لاکھوں دل آویز رنگوں، خوبصورت نقشوں، مسحور کن خوشبوؤں، جاذب نظر مناظروں اور لامحدود معنوی اور مادی حسن سے تخلیق کیا ہے۔ یہ جو فلک شگاف اور برف پوش پہاڑ ہیں، یہ جو خوبصورت اور دلکش سرسبز و شاداب وادیاں ہیں، یہ جو ہر دم جاری سمندر، خیرہ کن آبشاریں، جھیلیں اور یہ ٹھنڈے، میٹھے اور نرم و گرم پانی کے لاتعداد چشمے، نوع بہ نوع صحرائیں، ریگستان اور خوبصورت نیلا آسمان جو دن کو سورج سے روشن رہتا ہے اور رات کو لاکھوں کروڑوں ستاروں سے جگمگاتا ہے حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں انسان فطرت کے ان حسین نظاروں کے نہ صرف دیوانے ہوتے ہیں بلکہ ہر دم ان سے خوشی اور سکون بھی پاتے ہیں۔

یہ تو انسان کی قدرتی مناظر سے محبت کا اظہار ہے اس کے علاوہ انسان نے خود بھی بے شمار نقشے اور خاکے ایسے تخلیق کیے ہیں جن کی محبت میں خود انسان بری طرح گرفتار ہے۔ ان میں بلند بالا عمارتیں، مساجد، گرجا گھر، مندر اور مختلف مذاہب کی عبادت گاہیں، اہرام، ہوٹلز، پارک، چڑیا گھر، ساحل، عجائب گھر، ڈزنی لینڈ اور دیگر بہت سے انسان کے اپنے ہاتھوں تخلیق کردہ کرشمے ہیں جن سے انسان شدید محبت کرتا ہے ان کو دیکھنے کے لیے سالانہ اربوں ڈالرز خرچ کر کے دور دراز کا سفر طے کر کے سکون پاتا ہے۔ قدرتی مناظر ہو یا انسان کے اپنے تخلیق کردہ ظواہر، انسان ان سب کی محبت میں ہمیشہ سے گرفتار ہے اور گرفتار ہی رہے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2019ء میں، دس کروڑ سیاحوں نے فرانس کا رخ کیا تھا۔ سیاحت کی تاریخ میں یہ ایک ریکارڈ ہے۔

معاشرے میں محبت کی فضاؤں اور جذبوں کو برقرار رکھنا سو فیصد ایک ارادی اور خارجی عمل ہے جس کے لیے باقاعدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے قومی سطح پر احساس، احسان، استحقاق، انصاف اور احترام کا عمومی سلوک روا رکھنا۔ یہ چیزیں جس معاشرے میں بھی مسلسل نظر انداز ہوتی رہی گی وہاں لازماً نفرتیں جنم لیں گی جو بالآخر سماج کو جہنم بنا کر چھوڑ دے گی۔ یاد رکھیں محبت کوئی جادوئی چیز نہیں بلکہ یہ ایک مثبت اور تعمیری جذبہ اور رویہ ہے جیسے پہلے باقاعدہ پیدا اور بعد میں پروان چڑھایا جاتا ہے تب یہ کام دکھاتا ہے ورنہ اس سے محرومی کے واقعات بھی دنیا نہ صرف دیکھ چکی ہے بلکہ بری طرح سہہ بھی رہی ہے۔

عالمی سطح پر بھی، عالمی امن اور استحکام کے واسطے، عالمی ہم آہنگی، رواداری اور موافقت کی اشد ضرورت ہوتی ہیں جو کہ محبت کے بغیر قطعاً ممکن نہیں اور اس کا سادہ سا نسخہ یہ ہے کہ چھوٹے اور کمزور قوموں کی، بڑے اور طاقتور ممالک انسانی بنیادوں پر نہ صرف مدد کریں بلکہ ان کی اندرونی معاملات میں مداخلت سے مجتنب بھی رہیں یقین کریں یہ پالیسی نہ صرف طاقتور ممالک کو دنیا سے محنت، سیاحت اور مہارت پہنچنے کا راستہ کھول دے گی بلکہ ان کے عالمی ساکھ بہتر بننے میں مددگار بھی ثابت ہوگی۔ مجھے زندگی میں کبھی ترکی یا فرانس جانے کا موقع نہیں ملا لیکن ان دو ملکوں کے لیے میرے دل میں ٹھیک ٹھاک محبت موجود ہے اور میں ہر دم وہاں جانے کو تیار بیٹھا ہوں۔ یہ احساس، اس ساکھ کی بدولت ہے جو میرے اندر رفتہ رفتہ پروان چڑھا ہے۔ یہ حال ہر فرد کا ہے ہر کسی نے، کسی نہ کسی ملک، مقام یا فرد کو اپنے سینے میں نصب کیا ہے۔

ہم اگر چاہتے ہیں کہ یہ دنیا حقیقی معنوں میں آباد اور خوشحال ہو تو ہمیں محبت کے ذریعے برباد کرنے والی نفرتوں کا راستہ روکنا ہوگا۔ اس دنیا کی آبادی، خوشحالی، امن، استحکام اور تحفظ دراصل بے لوث محبت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ محبت کا احساس آدھا قدرتی ہے اور آدھا ارادی۔ ہمیں دونوں سے سرشار ہو کر اپنے رویوں کو اس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں بالکل یہ نہیں سوچتا کہ اس دنیا میں صرف اور صرف محبت ہے اور نفرت یا اسباب نفرت کوئی وجود نہیں رکھتے۔ مختلف سوچ، مختلف احوال، مختلف جذبات، مختلف عقائد اور مختلف مفادات رکھنے والے لوگوں میں نفرت یا اسباب نفرت بالکل یقینی ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ محبت اور اسباب محبت کو فروغ دے کر ممکنہ حد تک نفرت اور اسباب نفرت کا راستہ روکنے کے لیے انفرادی، قومی اور بین الاقوامی ہر تین سطح پر اپنا کردار ادا کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے