پرانی بات ہے۔ میں نے شیخ رشید کو فون کیا اور شام کے ایک لائیو شو میں شرکت کی دعوت دی۔ شیخ صاحب حسبِ روایت بڑے تپاک سے بات کر رہے تھے۔ جب انھوں نے پوچھا کہ اور کون مہمان ہوگا تو میں نے سادہ دلی سے جواب دیا: "عمران خان۔”
یہ سننا تھا کہ شیخ صاحب کا موڈ بدل گیا۔ جھلا کر بولے،
"او دفع کرو جی، کس پاگل کو ساتھ بٹھا رہے ہیں۔”
اور یوں بغیر کسی شرمندگی کے انکار کر دیا۔
کون کہتا ہے کہ سیاست میں وفاداریاں پتھر پر لکیر ہوتی ہیں؟
ایک اور منظر یاد آیا۔ حامد میر کا پروگرام تھا ، عمران خان اور شیخ رشید ایک ساتھ جلوہ افروز تھے۔ جب عمران خان نے بے ساختہ کہا تھا :
"میں تو شیخ رشید کو چپڑاسی بھی نہ رکھوں۔”
سیاست میں الفاظ کی عمر موسمی بیماریوں سے بھی کم ہوتی ہے۔ وہی عمران خان بعد میں شیخ رشید کو نہ صرف ساتھ بٹھاتے رہے بلکہ ان کی سیاسی بصیرت کے قصیدے بھی پڑھتے پائے گئے۔ کیا مجال جو کوئی پرانی بات یاد دلا دے، فوراً جواب آئے گا: "سیاق و سباق بدل چکا ہے۔”
ایک بار الیکشن جیتنے کے بعد، ایک صحافی نے خواجہ سعد رفیق سے یہ گستاخانہ سوال کر ڈالا کہ حضور! انتخابات سے پہلے آپ نے تو بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے، اب کیا ہوا؟
خواجہ صاحب نے مسکرائے اور بولے :
"الیکشن کمپین میں کی گئی باتیں ووٹ لینے کے لیے ہوتی ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔”
بیشک، سچائی اگر اتنی سستی ہو تو جھوٹ بولنے میں کیا حرج؟
اور ہمارے شہباز شریف صاحب ، اب تو منور ظریف سے زیادہ ان کی فلموں پر ھنسی آتی ہے۔ قوم کو آ سرے دیتے رہے کہ
"زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا، نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔”
مگر نہ زرداری کو گھسیٹا، نہ اپنا نام بدلا۔
روزمرہ کی زبان میں اگر کوئی دوست دھوکہ دے، وعدہ خلافی کرے یا موقع پرستی دکھائے تو کہا جاتا ہے:
"ہمارے ساتھ سیاست مت کرو!”
یعنی سیاست کرنا جھوٹ بولنا، فراڈ کرنا، ذاتی مفاد کے لیے اصولوں کی قربانی دینا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سیاست کوئی پیشہ نہیں، بلکہ ایک مستقل بے شرمی کا عمل ہے، جس میں نہ کردار کی قید ہے نہ قول کی شرمندگی۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہی "فن” ہمارے نصاب میں "شہری حقوق و فرائض” کے نام پر سنوار کر پڑھایا جاتا ہے۔ نوجوانوں کو بتایا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے۔ شاید اسی "خدمت” کے نام پر ملک کے خزانے بھی خالی ہوتے ہیں اور عوام کی جیبیں بھی۔
سیاست دان جب وعدہ کرتا ہے تو ایسے لہجے میں گویا اگلے ہی دن دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے گا۔ لیکن جوں ہی اقتدار کا ہما سر پر بیٹھتا ہے، تمام وعدے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے جاتے ہیں۔
کہاں گئے وہ عہد کہ بجلی سستی ہوگی؟ کہاں گئیں وہ قسمیں کہ انصاف پانچ منٹ میں ملے گا؟ کہاں گئیں وہ بڑھکیں کہ کرپٹ لوگوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا؟
سیاست دانوں کی اکثریت نے سیاست کو ایک ایسا تماشا بنا دیا ہے جس میں ناظرین کی حیثیت محض تالیاں بجانے یا افسوس کرنے تک محدود ہے۔
اصل کھیل تو پردے کے پیچھے ہوتا ہے۔
اور ہم؟ ہم ہر بار نئے وعدوں کے جال میں ایسے پھنس جاتے ہیں جیسے مکھی شہد میں۔ خوش ہو کر سوچتے ہیں کہ اب کی بار شاید کچھ بدل جائے گا۔
مگر افسوس، صرف چہرے بدلتے ہیں، کردار نہیں۔
ایسا کیوں لگتا ہے جیسے سیاست کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ:
"کبھی اپنے الفاظ کا بوجھ مت اٹھاؤ، عوام کی یادداشت کمزور ہے۔”
اگر کبھی کوئی وعدہ خلافی کرے، کوئی چالاکی دکھائے، کوئی اپنے مفاد کے لیے آپ کو بیچ دے تو برا مت منائیے گا۔
بس مسکرانا ھے اور کہنا ہے
"ہمارے ساتھ سیاست مت کرو”