میری ماں: خدمت، ہمت، محبت اور عظمت کی پیکر

فطری طور پر دل کی دنیا بحر اوقیانوس کی طرح وسیع و عریض ہوتی ہے اور اس میں مختلف قسم کے جذبات و احساسات کے ہزاروں لاکھوں جزیرے اور اربوں کھربوں خانے ہوتے ہیں، دل پر ہر انسان کو یہ قدرت حاصل ہے کہ کوئی چاہے تو اس کو وسیع و عریض، نرم و ملائم اور روشن و منور کر دیں اور کوئی چاہے تو اس کو تنگ و تاریک، سخت و خشک اور بے آب و گیاہ چھوڑ دیں۔ میں نے ارادی کوشش اور خدا سے دعا کی ہے کہ میرا دل ممکنہ حد تک وسیع و عریض، نرم و ملائم، روشن و پُرامید اور متحرک و فعال رہے کیوں؟ کیونکہ زندگی کی نوے فیصد خوشیاں اور راحتیں ایسے دلوں کا رُخ کرتی ہیں۔

تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست ہوتا ہے اور اگر وہ فاسد ہو جائے تو پورا جسم فاسد ہو جاتا ہے اور خبردار وہ ٹکڑا "دل” ہے۔ میں روز اہتمام کرتا ہوں کہ اس اہم ترین ٹکڑے کا کچھ نہ کچھ جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ وہ درست حالت میں ہے یا خدا نخواستہ فاسد حالت میں؟

دل کی آبادی، آسودگی اور درستگی کے لیے سب سے موثر نسخہ محبت ہے۔ محبت دلوں کو صاف، نرم، شیریں اور مہربان رکھنے میں بے حد کامیاب نسخہ ہے۔ دل اور محبت کا چولی دامن کا ساتھ ہے دل محبت کے لیے بہانے ڈھونڈتا ہے اور محبت دل میں بسنے کے لیے ہر دم ٹھکانے تلاش کرتا رہتا ہے۔ آج میں ایک ایسی ہستی کے بارے میں اپنے احساسات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جس سے میری محبت سدا بہار، ماوراء، غیر مشروط، لامحدود، دیرپا، مقدس اور آفاقی نوعیت کی ہے اور وہ ہے میری ماں۔

انسانی رشتوں میں اللہ تعالیٰ کی منشاء کو خاص عمل دخل حاصل ہے یہ جو ماں بچے، بہن بھائی، میاں بیوی، ماموں چچوں، خالوں اور پھوپھیوں سمیت مختلف عزیز و اقارب دنیا میں جا بجا موجود ہیں ان سب میں اللہ تعالیٰ کے فیصلوں اور منشاء کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ رشتوں کے قیام میں جو حکمتیں، محبتیں اور مصلحتیں کار فرما ہیں ان کو اللہ کی ذات ہی مکمل گہرائی اور گیرائی سے جان سکتی ہے اور کوئی نہیں۔ ہر رشتہ، ہر فرد کے لیے اللہ تعالٰی کی عظیم ترین نعمت ہے اور اس پر اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کرے، کم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی ماں سے نوازا ہے جس کی ہر دم تازہ دم محبت، ہمت، شفقت، خلوص، مہربانی، ہمدردی اور خدمت گزاری نے انسانیت پر ہمارے اعتماد کو استحکام بخشا ہے۔ ایک ایسے انسان جن کا دل اللہ تعالیٰ پر ایمان سے لبریز، انسانی ہمدردی سے سر تا سر مالا مال، حد درجہ خوش اسلوبی سے لوگوں کی خدمت میں مگن رہنے کے باوجود کبھی نہ تھکنے والی اور پل پل زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے جذبے اور تحریک سے آراستہ انسان جن کے نزدیک سستی، کاہلی، مایوسی، بے کاری، بے مقصدیت اور بدتہذیبی ناقابل برداشت چیزیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ پر مضبوط ایمان، گہرا اعتماد اور اس سے حد درجہ نیاز مندانہ وابستگی میری ماں کی نظریاتی زندگی کی بنیاد ہے۔ وہ خاص اہتمام سے اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لاتی ہیں، والہانہ انداز میں دن رات دعائیں مانگتی ہیں، اسلامی تعلیمات اور اصولوں کو زندگی کے وسیع تناظر میں اہمیت دیتی ہیں، رضائے الٰہی کے واسطے اس کی مخلوق کی مخلصانہ خدمت میں ہر دم مصروف عمل رہتی ہیں، نہایت مشفق، ہمدرد اور مہربان انسان، جو خدا کے لیے اس کے بندوں سے نیک سلوک کو دائمی طور پر روا رکھتی ہیں۔

میری ماں کی سب سے بڑی خوبی، جس نے اس کی پوری شخصیت کا احاطہ کیا وہ ہے ہمت جو کبھی نہیں ڈگمگائی۔ اس نے زندگی کے چیلنجوں کا ہمیشہ پوری ہمت سے سامنا کیا، ان کے راستے میں آنے والی ہر مشکل کو جس حوصلے سے انہوں نے عبور کی، خواتین میں، اس کی کوئی مثال میری نظر میں نہیں۔ مشکلات میں، انہوں نے ہر موقع پر بے مثال حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا، اور اپنے عمل سے سکھایا کہ صرف ہمت ہی وہ نسخہ ہے جس سے مشکلات پر قابو پانا ممکن ہوتا ہے۔

میری ماں کی خوش مزاجی سدا بہار ہے۔ وہ نہ صرف خود خوشی اور وقار سے زندگی بسر کرنے کے اصول پر عمل پیرا ہیں بلکہ دوسروں کے بھی اس سلسلے میں نہایت مخلصانہ طور پر مدد اور رہنمائی کر رہی ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو میری ماں کی حوصلہ افزائی، مدد، مشوروں اور نصیحت سے مایوسی، پریشانی اور بے مقصدیت کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی بچیوں کو نہ صرف پڑھنے کی طرف راغب کیے بلکہ ان کی مقدور بھر مدد بھی کرتی رہی۔ ان کی دلچسپ گفتگو ہمیشہ محفلوں کو قہقہوں سے بھر دیتی ہے، وہ ہر عمر اور احوال کے لوگوں میں، سیکنڈوں میں، مانوس ہو کر گھل مل جاتی ہیں اور انہیں کامیابی کے امکانات اور خوشی کے مختلف پہلوؤں سے متعارف کر رہی ہوتی ہیں۔ ان کی موجودگی، ان تمام لوگوں کے لیے خوشی اور سکون لاتی ہے جو کہ ان سے کسی نہ کسی صورت میں منسلک ہیں۔ دکھ یا پریشانی کے اوقات میں، پریشان لوگوں کی حوصلہ افزائی اور ٹوٹی امیدوں کی بحالی کو، میری ماں نے باقاعدہ ایک سائنس بنا دیا ہے جس کو ہر ضروری موقع پر استعمال کرتی رہتی ہے۔ یہ وہ فطری صلاحیت ہے جو میری ماں کو خواتین کے حلقوں میں ممتاز مقام دلاتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ "زندگی کے مشکل ترین حالات میں بھی خوشی اور کامیابی کا امکان کبھی ختم نہیں ہوتا بس محنت اور حوصلہ برقرار رہنے چاہیں”۔

مہربانی اور خلوص سے میری ماں کا دل قدرتی طور پر خوب سیراب ہے، جب بھی ان سے کسی کا واسطہ پڑتا ہے تو ہر فرد چند لمحوں میں ہی ان کی ان خوبیوں کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ چاہے یہ واسطہ مشاورت کے صورت میں ہو، تیمارداری کے وقت میں ہو، مدد کرنے کے موقع پر ہو، تقریبات میں شرکت کے دوران ہو یا پھر حوصلہ افزائی کے ذریعے، وہ حقیقی معنوں میں دوسروں کی بھلائی عزیز رکھتی ہے۔ ان کی غیر معمولی ہمدردی اور خیر خواہی لمحوں میں، دلوں میں گھر کرتی ہے۔ ان کے دل میں ٹنوں کے حساب سے موجود مہربانی، چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر بڑے بڑے معاملات تک کا بیک وقت احاطہ کرتی ہے۔

میری ماں تہذیب و شائستگی کا ایک جاذب نمونہ ہے۔ وہ اپنی باتوں، کاموں، معاملات، تعلقات، لباس و پوشاک اور طرزِ بود و باش میں ہمیشہ تہذیب و شائستگی کے معروف اصولوں کا خیال رکھتی ہیں اور مسلسل بزبان حال یاد دلاتی ہے کہ کبھی بھی، کسی کو بھی، تہذیب و شائستگی کے اصولوں کی مخالف سمت میں نہیں جانا چاہیے۔ وہ زندگی میں سب سے زیادہ جن خوبیوں کی قدر دان ہیں وہ تہذیب، قابلیت، محنت اور نیک خوئی ہے۔ وہ ہمیشہ خاندان کے ان مرد و خواتین کو بطورِ مثال پیش کر رہی ہیں جو مذکورہ بالا خوبیوں کے حامل ہو۔

خدا داد ذہانت و فطانت میری ماں کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے جو ان کی زندگی میں خوب نمایاں ہے۔ ہر وقت کی مناسبت سے بات یا کام کرنا کوئی ان سے سیکھیں۔ بسا اوقات لوگ درست انداز میں بات رکھنے یا کام انجام دینے کی پرواہ نہیں کرتے اور یوں ان کے سامنے مشکلات آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ میں نے زندگی بھر ان کے بہترین انداز میں بات رکھنے اور کام کرنے کا مشاہدہ کیا ہے۔ ہر فرد اور کام کے حوالے سے مناسب حال طریقہ اپنانے میں انہیں جو ذہانت حاصل ہے تو وہ اگر بالکل نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ کب خاموشی، کب گویائی، کب نرمی، کب سختی، کب ہنسی اور کب سنجیدگی؟ یہ امتزاج بنانے اور نبھانے میں والدہ محترمہ کو خاص مہارت حاصل ہے۔ لوگوں کی منشاء اور توقعات تک پہنچنے میں انہیں بس چند سیکنڈز چاہیے اور بس۔ میری ماں نے کام بنانے، معاملات سلجھانے، مسائل حل کرنے اور ماحول کو خوشگوار رکھنے میں اپنی ذہانت سے جس مہارت اور فراوانی سے کام لیا ہے وہ ان کا خاصہ ہے۔ کون عقلمند اور کون احمق؟ یہ اندازہ کرنے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ مستقبل بینی تو ایسی کہ برسوں دور حالات و واقعات کی رونمائی وہ بہت پہلے ہی کر لیتی ہیں۔

میری ماں کی مضبوط امید اور حوصلہ مندی زندگی کے سفر میں ہموار انداز سے آگے بڑھنے میں ہماری مدد کرتی رہتی ہے۔ وہ کبھی بھی، بہتر کل پر اپنا اعتماد کھونے نہیں دے رہی اور خاص بات یہ ہے کہ صرف اپنے کل پر نہیں دوسروں کے کل پر بھی۔ ہم بھائی کبھی کبھی پریشان ہوتے ہیں لیکن ہماری ماں کبھی نہیں۔ وہ پریشان ہونے کے بجائے ہمیشہ مسائل کا حل سوچتی ہیں اور کامیاب ہوتی ہیں۔ ان کا حوصلہ ایک "مینارہ نور” کا کام کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے زندگی میں وہ مشکل کبھی نہیں دیکھیں جن میں میری ماں کے حوصلے نے جواب دیا ہو۔ چالیس سال پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں کہ کبھی کوئی ایسا لمحہ یا آزمائش گزری ہے جس نے میری ماں کے حوصلے کو کبھی توڑا ہو تو یقین کریں ایسا کوئی لمحہ یا آزمائش میری یادداشت میں محفوظ نہیں۔

میری ماں لباس و پوشاک کے حوالے سے اعلی ذوق کی حامل ٹھہری ہیں اس سلسلے میں وہ بہتر سے بہتر معیار کی تلاش میں ہمیشہ لگی رہتی ہیں اور کبھی بھی "گزارے والی” چیزوں کو درخور اعتناء نہیں سمجھتی حالانکہ کھانے پینے اور دوسرے معاملات میں وہ بے حد بے تکلف واقع ہوئی ہیں لیکن بہترین کپڑوں تک پہنچنے میں وہ خوب محنت اور توجہ سے کام لے رہی ہیں۔

خدمت کا بے مثال جذبہ اور اہتمام میری ماں کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ سراپا خیر خواہی ہے اور یہ خالصتاً فطری اور قدرتی ہے، مصنوعی اور عارضی نہیں۔ بے شمار لوگ، بے شمار مواقع پر حالات اور مشکلات کے دباؤ سے تنگ آکر بے شمار معاملات میں ہاتھ کھینچ لیتے ہیں لیکن میری ماں ایسے ہی اوقات میں خدمت اور خیر خواہی کے تقاضوں کو زیادہ جوش و جذبے سے پورا کرنے کے لیے سامنے آتی ہے۔ اپنے گھر، گاؤں، اسلام آباد، پشاور اور مختلف ہسپتالوں میں انہوں جس والہانہ انداز میں بے شمار مریضوں، طالب علموں، مسافروں اور تنگ دستوں کی خدمت انجام دی ہے اس کی مثال نہیں۔

میری ماں حقیقی معنوں میں ایک مہمان نواز خاتون ہیں۔ وہ جس خلوص، محنت، اور لگن سے مہمانوں کی خاطر تواضع کرتی رہتی ہیں وہ اپنے مثال آپ ہے۔ وہ ایک مہربان فطرت کی مالک ہیں، اس کے ہر ہر لفظ اور ہر ہر عمل میں اس کا خلوص واضح طور پر جھلکتا ہے۔ ان کی مخلصانہ مہمان نوازی اور خدمت کے جذبے نے انہیں خاندان اور اڑوس پڑوس میں ایک مقبول اور محبوب شخصیت بنا دی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دروازے پر کوئی مانگنے والا آیا ہو اور اسے بے نوا جانے دیا ہو۔ کئی برس ہوئے خاص اہتمام سے گھر کے سامنے ٹھنڈے پانی کے کولر رکھے ہیں جن کو وہ خود روزانہ کئی بار بھرنے کا کام کر رہی ہیں اور حد درجہ خوشی اور اطمینان سے۔ جس جگہ رکھے ہیں اس کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھتی ہیں۔ اکثر مہینے میں ایک دو بار غریب محنت کشوں کے لیے کھانا خود پکا کر بھیجتی ہیں۔

گاؤں میں 1996 کو ہم نیا گھر تعمیر کر رہے تھے اس وقت میری ماں نے چھ آٹھ ماہ تک کام کرنے والے افراد کا جنتا اور جیسا خیال رکھا اس کی مثال نہیں، کام کرنے والوں کو وی آئی پی مہمانوں کا درجہ دیا ہوا تھا اور ان کی عزت، سہولت اور رعایت میں جو کچھ ممکن ہوتا وہ نہایت خوشی اور ہمدردی سے کر گزرتی۔ زندگی بھر کسی بھی انسان سے توہین آمیز سلوک کا ارتکاب تو دور کی بات، اس بات کا تصور بھی ان کے ہاں نہیں۔ تمام انسانوں سے عزت، محبت اور خلوص سے پیش آنا ان کی زندگی کا ایک ایسا اصول ہے جس سے سرمو انحراف روا نہیں رکھا جاتا۔

میری ماں کی ہمت اور مہربانی نے ہمیشہ خاندان کے فلاح و بہبود میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، ان کی تربیت نے ہم بہن بھائیوں کو ایسے انسان بننے میں مدد کی ہے جو کہ ہمیشہ امید، خوش اخلاقی، ہمدردی، خیر خواہی اور شائستگی کے ساتھ رہنے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں اور جس نے کسی کو بھی ضرر دینا اپنے اوپر مطلق حرام کیا ہے۔ میری ماں بظاہر تو میری ماں ہے لیکن حقیقت میں وہ معاشرے کے بہترین انسانوں میں سے ایک ہیں جو ہر دم لوگوں کی خیر خواہی، خدمت گزاری اور حوصلہ افزائی میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ میں اپنے رب کا اس عطا پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے ایک اچھی، سچی، میٹھی اور کھری خاتون کو میری ماں بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری ماں کو صحت و سلامتی، خیر و برکت اور خوشی و محبت کے ساتھ طویل اور پر عافیت زندگی عطا فرمائے اور ہمیں ان کی خدمت و اطاعت سے سعادت بھی نصیب فرمائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے