میرے بیٹے عبدالرحمن نے بلی پال رکھی ہے۔ یوں سمجھیں کہ اس نے خاندانی روایت کو قائم رکھا ہے۔ میں نے بھی بچپن میں ایک بلی پال رکھی تھی، اور عبدالرحمن کے دادا نے بھی۔ تین پشتوں سے یہ سلسلہ جاری ہے.
یہ موجودہ بلی ہم نے خاص طور پر اپنے گاؤں سے امپورٹ کی ہے۔ اتنی اہتمام سے تو شاید ہم نے کوئی فرنیچر بھی نہیں منگوایا۔ مجھے یہ بلی پہلی ہی نظر میں عجیب اور مشکوک لگی۔ ہر وقت خاموش، چوکنی، جیسے کسی خاص مشن پر ہو، یا جیسے اسے معلوم ہو کہ ابھی کچھ "ہونے” والا ہے۔ کوئی خفیہ ایجنسی کی ریٹائرڈ ایجنٹ لگتی ہے۔
کئی بار تو یوں دیکھتی ہے جیسے سر ہلا کر کہہ رہی ہو، "ہُنہ!” گویا ہم سب بے وقوف ہیں اور یہ ہی سب کچھ جانتی ہے۔ آدھی رات کو آسمان کی طرف گھنٹوں یوں گھورتی ہے جیسے کوئی نادیدہ اڑن طشتری اتر رہی ہو۔
ایک تو یہ خود مشکوک اور پھر اس کے سونے کے مقامات بھی کچھ زیادہ ہی مخصوص اور مشکوک ہیں: کپڑوں والی الماری، موزوں والی دراز، یا پھر میری کتابوں والی الماری میں ابن صفی کے ناولوں کے پیچھے۔ مجھے شک ہے کہ یہ ابن صفی کے ناول پڑھ چکی ہے، اسی لیے اتنی پرسرار ایکس ٹو کی طرح۔
شام کے وقت باہر گارڈن میں اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھتی ہے۔ چاروں طرف بے شمار پرندے ہوتے ہیں، لیکن مجال ہے جو کبھی کسی پر جھپٹی ہو۔ الٹا انھیں ایسے دیکھتی ہے، جیسے ان کی والدہ محترمہ یہی ہو۔ پرندے بھی پہلے تو ڈرتے تھے، اب عادی ہوگئے ہیں۔
ایک ریٹائرڈ جرنیل کی طرح اس نے ہر چیز کا وقت خود ہی مقرر کر رکھا ہے۔ شام چار سے پانچ کے درمیان دنیا الٹ جائے، آپ کچھ بھی کر رہے ہوں، اس نے ٹی وی پر یا موبائل پر ہر صورت ٹام اینڈ جیری دیکھنے ہیں۔ پورے خاندان کو معلوم ہے کہ یہ اس کا "پرائم ٹائم” ہے۔ کس کی ہمت ہے کہ ریموٹ کو چھو بھی لے۔
غیر محسوس طریقے سے اس نے گھر کے ہر فرد کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ ھر کوئی اسے ھی خوش رکھنے کی کوشش میں لگا ھوا ھے ۔ رات کو سونے سے پہلے محترمہ کو "چمپی” کی سروس بھی درکار ہوتی ہے۔ اور اگر ذرا دیر ہو جائے تو ایسی گھورتی ہے جیسے یونان کا کوئی مجسمہ ابھی حرکت کر کے تھپڑ لگا دے گا۔
اس کا اپنا یوٹیوب چینل ہے اور اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ کب اس کی ویڈیو بنائی جا رہی ہے۔ جیسے ہی کیمرہ آن ہو، اس کی گردن اور دُم میں خم آ جاتا ہے، ایسا انداز کہ فرنچ ماڈلز کو مات دے۔ اب تو سب اس کو کیٹ فلوئنسر کہنے لگ گئے ہیں
کبھی کبھی ایسے لگتا ہےکہں اچانک پتہ چلے گا یہ کسی دور دیس کی رانی تھی، جو بھیس بدل کر ہمارے ہاں عام زندگی کا تجربہ لے رھی ھے اور ہمیں رعایا سمجھ کر حکومت فرما رہی ہے۔
خیال تو ہمارا یہی تھا کہ ہم نے اس بلی کو پالا ہوا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ بلی نے ہمیں پال رکھا ہے۔ ہم سب نہ چاھتے ھوئے بھی اس کے ملازم بن چکے ہیں۔
دعا ہے کہ اس کی سلطنت یونہی قائم رہے۔ ورنہ اگر اس نے ہمیں ناپسند کر دیا، تو شاید کل کو ہم ہی کسی اور کی الماری میں چھپے ہوں گے۔