"میرا نظریہ ففٹی ففٹی ہے”۔ یہ بات جب کبھی کہنے کا موقع ملتا ہے تو کچھ لوگ تو فوراً سمجھ لیتے ہیں اور کچھ حیرت سے پوچھنے لگتے ہیں وہ کیسے عنایت؟ آج تھوڑی سی تفصیل دوستوں کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے رہا ہوں کہ ایک متوازن طرزِ زندگی بنانے کے لیے "ففٹی ففٹی” کا انداز اختیار کریں بخدا آپ بے شمار ذہنی اور عملی الجھنوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
انسان کو کائنات کے جس مقام پر کھڑا کر دیا گیا ہے، وہ دراصل "ففٹی ففٹی” کا ہے، انسان بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن بہت کچھ ایسا بھی ہے جس کے سامنے وہ ہاتھ کھڑا کر دیتا ہے، بہت کچھ سوچتا ہے اور بہت ساری چیزوں کے بارے میں اس کی سوچ بے بس ہو جاتی ہے، کچھ موضوعات اس کے دائرہ علم میں آجاتے ہیں جبکہ کچھ اس کے سمجھ سے باہر ہی ہوتے ہیں، بعض خواہشات اس کی زندگی میں تو بھر آتی ہیں لیکن بعض سینے میں دفن رہ جاتی ہیں، کوئی فرد کھڑا رہ کر ایک قدم تو اٹھا سکتا ہے لیکن دوسرا قدم اٹھانے سے خود کو قاصر پاتا ہے۔ اس کے آگے تقدیر ہے یہ اس کو اطمینان دیتی ہے جبکہ پیچھے تدبیر ہے اور یہ اس کو سکون کا سانس لینے کبھی نہیں دیتی۔
ہماری زندگی ساری "موجودات” کے اندر ہے لیکن ایمان "غیب” پر مطلوب ہیں۔ گرمی سردی ایسی موسمی کیفیات ہیں جنہوں نے ہمارے ماحول اور ضروریات کے توازن کو تھام رکھا ہیں لیکن ہم گرمی اور سردی پڑنے پر مخالف سمت میں جانا شروع ہو جاتے ہیں، ہم پانی کو کام میں لاتے ہیں لیکن خود کو اس میں ڈوبنے سے بچاتے بھی ہیں، ہم آگ کو پکانے کی اجازت تو دیتے ہیں لیکن جلانے کی قطعاً نہیں۔
ایک اور معاملہ بھی ملاحظہ کریں آگر چہ نیکی اور بدی، نفرت اور محبت، اصول اور بے اصولی، شرافت اور رذالت، اچھائی اور برائی، ظلم و انصاف، صلاحیت اور نالائقی، خیر اور شر ہم میں سے ہر ایک شدت سے محسوس تو کر رہا ہے لیکن دیکھے آج تک کسی نے بھی نہیں، کان میں پکار پانچ وقت رحمن کی پڑتی ہے لیکن بہلاوے میں شیطان کے بھی آجاتے ہیں۔ ہم آرزو مند تو خیر کے رہتے ہیں لیکن پڑتے شر میں بھی ہیں۔
انسان خوشی اور کامیابی کے تعاقب میں دوڑتا ہے مگر پریشانی اور ناکامی گویا اس کے تعاقب میں رہتی ہیں، بندہ ہزارہا خدشات ذہن میں اٹھاتا پھرتا ہیں لیکن وقت کے پردے میں قدرت نے اس کے لیے بے شمار کامیابیاں اور خوشیاں بھی چھپائی ہوتی ہے، خیر و شر کے ہزاروں شکلیں اس کو مسلسل اپنی اپنی جانب کھینچتے چلی جاتی ہیں۔ اسے شیطان دھوکے میں ڈالتا بھی ہے اور ضمیر، نیکی، خیر اور خوف خدا اسے روکے رکھتا بھی ہیں۔ یہی چیز اس کی زندگی کو ایک کشمکش، اور مقابلے کا عنوان بنا دیتی ہے۔
ہر آن انسان خواہش اور اصول کے درمیان آزمائش سے دوچار رہتا ہے۔ انسان کی زندگی میں دوست دشمن بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں، نفرت اور محبت کے جذبات بھی اپنا اپنا موقع و محل رکھتے ہیں، کچھ چیزوں کیلیے بندہ اندرونی محرکات پاتا ہے جبکہ کچھ معاملات کیلیے بیرونی عوامل کام کر رہے ہیں، اسے پھول اور کانٹے دونوں سے زندگی میں واسطہ پڑتا ہے، وہ اگے بڑھتا بھی ہے اور ساتھ گرتا بھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سنبھلتا بھی ہے۔
کون ہے جو زندگی میں ممکن نا ممکن، اتار چڑھاؤ، سرد و گرم، تلخ و شیریں، محبت و نفرت، سیاہ و سفید، سخت و نرم، اپنا و غیر، حق و باطل، حسن و قبح، شرافت و رذالت، ظلم و انصاف، شفقت و شقاوت، نیکی و بدی اور خیر و شر کا تجربہ یا مشاہدہ نہ ہوا ہو، یا کسی نہ کسی شکل میں مذکورہ بالا معنوی حقائق نے زندگی اور حال احوال کو متاثر نہ کیا ہو۔
"ففٹی ففٹی” دراصل انسان کے لیے ایک قدرتی حد ہے۔ جو اس سے واقف رہا وہ مطمئن، مسرور اور محفوظ رہے گا اور جو اس سے بے نیاز ہو کر شاہراہِ حیات پر بے ہنگم دوڑے گا، نتیجتاً وہ گرے گا، کٹے گا، ڈوبے گا، پھٹے گا، یا پھر تڑپ تڑپ کر جیے گا وہ اطمینان اور اعتدال کی بیش بہا دولت سے زندگی میں محروم ہی رہے گا۔
یہ تو رہا معاملہ "ففٹی ففٹی” اصول کا زندگی کے انفرادی دائرے میں اب آئیے ذرا اجتماعی زندگی میں بھی اس نقطہ نظر کی برکات اور اثرات کا سطحی سا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے بھی کہ اجتماعی دائرے میں "ففٹی ففٹی” اصول سے ہٹ کر کوئی مناسب راستہ موجود نہیں۔
لیکن رکئے انفرادی دائرے سے اجتماعی دائرے تک بڑھنے سے پہلے ہمیں دو بنیادی معاملات پر بھی ذرا روشنی ڈالنے دیں اور وہ ہیں جذبات اور مذاہب کے معاملات کیونکہ انسانوں میں جوڑنے اور توڑنے کے تناظر میں ان سے زیادہ طاقتور اسباب اور کوئی نہیں تو آئیے ملاحظہ کریں۔
زندگی میں جذبات و احساسات کے معاملات بھی سو فیصد "ففٹی ففٹی” پر مبنی ہیں۔ نفرت و محبت، پسند و ناپسند، مانوسیت و اجنبیت، رغبت و کراہت، نیاز مندی و بے نیازی وغیرہ بہت ساری چیزیں دو طرفہ ہوتی ہیں یک طرفہ یہ ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اسی بنیاد پر اللہ کو انسانوں کے درمیان مختلف معاملات اور تعلقات کی شیرازہ بندی پیش نظر ہے۔ دلوں، ذہنوں، روحوں اور لوگوں کا باہم جڑنا یا نہ جڑنا ایک ایسا "ایشو” ہے جس کی مصلحتوں کا کامل علم خدا کی ذات کو ہے حضرت انسان کو نہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ جذبات کے معاملے میں لوگوں کو زیادہ "جذباتی” ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس معاملے میں مناسب حدوں سے تجاوز کرنا، کسی کے لیے بھی قطعاً مناسب نہیں۔
مذہب انسانی زندگی میں ہدایت اور صداقت کا بنیادی منبع ہوتا ہے اور یہ خدا سے گویا انسان کے باضابطہ تعلق کا معتبر ترین راستہ ہے لیکن طویل انسانی تاریخ میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لیے مختلف اوقات اور مقامات پر مختلف پیغمبر اور کتاب بھیجے ہیں۔ ایک نبی اور ایک کتاب سے خدا نے سب انسانوں کو مخاطب نہیں کیا۔ ہر فرد اور قوم کے عقائد اور مذہب کی پشت پر دراصل ایک پوری تاریخ اور پس منظر ہوتا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر اختلاف کا معاملہ سادہ، سطحی اور محدود نہیں اس لیے مذہب کے مختلف ہونے پر کسی بھی انسان سے نفرت جائز نہیں بلکہ اچھا طریقہ یہ ہے کہ سب ایک دوسرے کو خلوص اور بصیرت سے اپنی ہاں موجود ذہنی، علمی، تہذیبی اور اخلاقی خوبیوں کا سہارا لے کر مخاطب کریں اور نفرت کی بجائے محبت سے صحت مندانہ عالمی اور مقامی مکالمے کو رواج دیں یاد رکھیں عین یہی نقطہ نظر مختلف مسلکوں کے حوالے سے بھی درست ہے۔
ایک ایسی دنیا میں جو کہ اکثر و بیشتر دو انتہاؤں پر چلتی رہتی ہے، ایسے میں "ففٹی ففٹی” کا اصول حکمت اور توازن کی روشنی لیے کھڑا وقار سے پاگل دنیا کو سمجھا رہا ہوتا ہے کہ سنبھل جا ورنہ آگے تباہی کا گڑھا ہے۔ یہ رہنما اصول ہمیں اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں ضرورت سے زیادہ یا کم کے نقصانات سے بزبان حال متنبہ کر رہا ہے کہ توازن سے کبھی نہ ہٹنا ورنہ گرنا، ڈوبنا یا کٹنا مقدر بن جائے گا۔ یہ متوازن نقطہ نظر، انسان کو ہمیشہ زندگی میں "ففٹی ففٹی” کے اصول سے رجوع کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
"ففٹی ففٹی” اصول کی اصل یہ ہے کہ حقیقی خوشی، کامیابی، سکون اور تکمیل نیز فلاح و بہبود کا حصول دو انتہاؤں کی تلاش میں نہیں بلکہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے درمیان ایک ہم آہنگ توازن میں ہے۔ چاہے یہ ہماری ذاتی عادات ہوں، دوسروں سے تعلقات ہوں یا پھر معاشرے میں مختلف اجتماعی معاملات کے دوران دوڑ دھوپ کے وقت "ففٹی ففٹی” کا نقطہ نظر ہی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمہ جہت اعتدال ہی پائیدار خوشی، ترقی اور تحفظ کا راز ہے۔ آئیے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں!
مثلاً ذرا اپنے غذائی انتخاب پر غور کریں۔ یہاں بھی "ففٹی ففٹی” کا اصول ہی ممکن بنائے گا کہ غذائی اجزاء کا متوازن پیمانہ کیا ہوگا، جس میں معیار، مقدار، مناسبت اور اوقات سمیت مختلف ذوق و مزاج کا لحاظ بھی رکھا گیا ہو۔ یہ اہتمام زیادہ یا کم خوراک کے نقصانات سے بچاتا ہے، جو بالآخر جسمانی اور ذہنی عدم توازن کا باعث بنتا ہے۔ ایک صحت مند، متوازن، مناسب اور بروقت غذا سے ہی جسم اور ذہن کی بہتر پرورش ممکن ہے۔
اس طرح ہماری پیشہ ورانہ زندگی اور اہداف کے حصول میں بھی "ففٹی ففٹی” کا آفاقی اصول ہمیں محنت اور آرام کے درمیان، خواہش اور قناعت کے درمیان توازن قائم کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اپنے وقت اور توانائی کو معقول طریقے سے خرچ کرنے میں، ہم سب کے فلاح و بہبود پوشیدہ ہیں۔ یہ اعتدال ہی ہماری تفریحی سرگرمیوں، سماجی مصروفیات بلکہ جدید سہولیات کے استعمال تک میں جا بجا کھڑا، ڈٹا اور پھیلا ہوا ہے صرف اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہم اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں صحت مند توازن بہر صورت برقرار رکھیں۔
فرد سے لے کر خاندان تک، خاندان سے لے کر سماج تک، سماج سے لے کر ریاست تک اور ریاست سے لے کر بین الاقوام تک "ففٹی ففٹی” کا اصول ہی ہماری زندگی پر صحت مند ترین اثرات ڈالتا ہے۔ جب اور جہاں افراد اور معاشرہ دونوں اس نقطہ نظر کو اپناتے ہیں، تو وہ ماحول جنم لیتا ہے جس میں باہمی خلوص و محبت، افہام و تفہیم، ہمدردی و خیر خواہی اور تعاون و احترام فروغ پاتے ہیں جبکہ نفرت و حقارت، تقسیم و تصادم اور جنگ و جدل کی جڑوں میں اکثر و بیشتر "ففٹی ففٹی” اصول سے روگردانی ہی کار فرما نظر آئے گی۔
"ففٹی ففٹی” کا نظریہ نہ صرف دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ رہنے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ اپنے اصولوں پر چلنے کا حق بھی دیتا ہے۔ ففٹی ففٹی کا مقصد اپنے اصولوں کو چھوڑنا نہیں بلکہ دوسروں کا ضروری لحاظ رکھنا ہے اور بس۔ شاہراہِ حیات پر، ہم اگر گہرائی سے سمجھنا سمجھانا، توجہ سے سننا، خیر خواہی سے قبول کرنا، خلوص سے ساتھ چلنا اور سنجیدگی سے سیکھنا شروع ہو جائیں، تو یہی چیز ہمیں "ففٹی ففٹی” تک لے کر دم لے گی۔ "ففٹی ففٹی” کا اصول اپنا کر، ہم نے جدید زندگی کی پیچیدگیوں کو نظر انداز کر کے، ذہنی، عملی، اخلاقی، روحانی اور خدائی اسودگیوں کو کام میں لاتے ہوئے ایک طاقتور اور وسیع فریم ورک تشکیل دینا ہے۔ اس متوازن نقطہ نظر کو اپنانے سے، ہم مقامی اور بین الاقوامی ہر دو سطح پر وہ ضروری ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جس کی انسانیت کو امن، انصاف، سکون، تحفظ، بقاء اور خوشحالی کی خاطر اشد ضرورت ہے۔