زاہدہ پروین کی آواز میں رچتا صوفی وجد

زاہدہ پروین، ایک ایسا نام جو صوفی موسیقی کے افق پر آج بھی روشن ستارے کی مانند جگمگا رہا ہے۔ 7 مئی 1975ء کو جب لاہور کی فضا اس کی پرسوز آواز سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوئی، تو صوفیانہ گائیکی کا ایک باب مکمل ہوا۔

1925ء کے لگ بھگ امرتسر میں پیدا ہونے والی زاہدہ پروین نے موسیقی کا آغاز ایک سادہ مگر مضبوط بنیاد سے کیا۔ ابتدا میں بابا تاج کپورتھلہ والے سارنگی نواز سے سیکھا اور پھر استاد حسین بخش خاں امرتسر والے کی شاگردی اختیار کی۔ ان کے ساتھ تقریباً سات برس تک مسلسل ریاض اور سیکھنے کا عمل جاری رہا۔ یہ وہ دور تھا جب گائیکی صرف فن نہیں، ایک خلوص بھرا سفر ہوا کرتا تھا۔

بعد ازاں استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے جیسے نامور گلوکار کے در سے فیض حاصل کیا۔ پھر استاد اختر علی خان سے بھی کچھ عرصہ سیکھا۔ ان اساتذہ کی صحبت اور تربیت نے زاہدہ پروین کو گائیکی میں پختہ بنایا، خاص طور پر کلاسیکی موسیقی میں وہ خیال گائیکی پر مکمل عبور رکھتی تھیں۔ لیکن ان کی اصل پہچان کافی کی گائیکی بنی، ایک ایسا شعبہ جو روح کو چھو لینے والا تھا۔

ان کی آواز میں جب خواجہ غلام فریدؒ کا کلام ڈھلتا، تو سننے والوں کے دلوں میں وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی خواجہ فریدؒ کی کافیوں کو وقف کردی۔ اس مکمل وابستگی اور روحانی اظہار نے انہیں “ملکۂ کافی” کا لقب عطا کیا۔ ان کے گانے میں صوفی کلام نہ صرف گایا جاتا، بلکہ دل پر نقش ہو جاتا۔

معروف شاعرہ اور ادیب شبنم شکیل نے زاہدہ پروین کے فن اور شخصیت کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے:

"زاہدہ، جن کو آج کل کے لوگ شاہدہ پروین کی والدہ کی وجہ سے جانتے ہیں، بہت بڑی گلوکارہ تھیں۔ انھیں کافیاں، غزلیں، گانے اور نیم کلاسیکل میوزک پر گہرا عبور حاصل تھا۔ آپ نے ان کے کئی گانے سنے ہوں گے۔ ایک تو سلیم گیلانی کا ”بیتی رُت نہ مانے عمریا بیت گئی“، پھر سیف صاحب کی مشہور غزل ”مری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے“، اور ایک کافی ”کیا حال سناواں دل دا، کوئی محرم راز نہ ملدا“۔ ایسی لازوال چیزیں انھوں نے اور بھی بہت سی گائیں۔”

وہ ایک درویش صفت عورت تھیں اور معمولی سے کپڑے پہن کر ریڈیو آ جاتی تھیں۔ شکل و صورت کی بھی بہت ہی معمولی تھیں۔ گہرا سانولا رنگ، چھوٹا سا قد لیکن جب وہ گانا گاتی تھیں تو دنیا مسحور ہو جاتی تھی۔

زاہدہ پروین نے اپنی فنکارانہ زندگی میں وہ مقام حاصل کیا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ان کی آواز میں ایک درد، ایک کشش اور ایک پیغام تھا، جو محض تفریح نہیں بلکہ دل و جان کو جھنجھوڑ دینے والی کیفیت رکھتا تھا۔

جب 7 مئی 1975ء کو زاہدہ پروین کا انتقال ہوا، تو صرف ایک فنکارہ کا نہیں، ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔ وہ آج میانی صاحب لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں، لیکن ان کی آواز آج بھی ان کے عقیدت مندوں کے دلوں میں زندہ ہے، اور ان کی کافیوں کی گونج آج بھی صوفی موسیقی کے خیمے میں سنائی دیتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے