پاک بھارت سائبر اسپیس میں سرد جنگ: آزادی اظہار اور بین الاقوامی اصولوں کا امتحان

بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی عسکری اور ڈیجیٹل کشیدگی نے سائبر اسپیس کو ایک نیا محاذ بنا دیا ہے۔ جہاں روایتی حملے خبروں میں نمایاں ہوتے ہیں، وہیں سائبر دنیا میں خاموش مگر خطرناک کارروائیاں جاری ہیں۔ دونوں اطراف ہزاروں ویڈیوز اور خبریں شئیر کی جا رہی ہیں. جن کی تصدیق یا تردید کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے. ان ہزاروں پوسٹوں اور ویڈیوز کے ذریعے ڈس انفارمیشن کا ایک سیلاب رواں ہے . جن پر لاکھوں کروڑوں ویوز نے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے. جب کہ انڈین میڈیا بھی سوشل میڈیا کی طرح جنگی جنون کو بھڑکا رہا ہے

علاقائی کشیدگی اور غیر یقینی صورتِ حال کے تناظر میں، جہاں بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی، عسکری اور ڈیجیٹل محاذوں پر تناؤ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، پاکستان کی نیشنل سائبر ایمرجنسی ریسپانس ٹیم (National CERT) نے ایک نہایت اہم اور ہنگامی نوعیت کی ایڈوائزری جاری کی ہے۔ اس ایڈوائزری کا بنیادی مقصد میڈیا اداروں، فری لانس صحافیوں، یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر سرگرم مواد تخلیق کرنے والوں، اور عام شہریوں کو خبردار کرنا ہے کہ وہ موجودہ حساس حالات میں ذمہ داری، احتیاط اور اخلاقی اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔

حالیہ دنوں میں متعدد پاکستانی صحافیوں اور عوامی شخصیات کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھارتی حکام کی جانب سے محدود کیے جانے کی اطلاعات ملی ہیں، جو بیانیے پر کنٹرول اور جنگی حدود کے بغیر انتقامی کارروائی کی عکاسی کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ایک مثال وہ ڈس انفارمیشن مہم ہے جو 2019-20 میں EU DisinfoLab نے بے نقاب کی، جو بھارت سے منسلک تھی۔ اس نیٹ ورک نے جعلی میڈیا اور این جی اوز کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر پاکستان مخالف بیانیہ پھیلایا۔ یہ سرگرمیاں اقوام متحدہ کے ان اصولوں کی واضح خلاف ورزی تھیں جو غلط معلومات، پراکسی کا استعمال، اور خودمختاری کی خلاف ورزیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ایسے اقدامات اقوام متحدہ کے عالمی فریم ورک کے تحت ذمہ دار ریاستی طرز عمل پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں۔

یہ اصول 2015 میں اقوام متحدہ کے ماہرین کی ایک ٹیم نے وضع کیے اور بعد ازاں جنرل اسمبلی نے قرارداد 70/237 کے تحت انہیں منظور کیا۔ ان کا مقصد بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا اور ڈیجیٹل تصادم کو روکنا ہے۔ ان اصولوں کے چند نکات یہ ہیں‌.

(a) ریاستوں کو چاہیے کہ وہ معلومات و مواصلاتی ٹیکنالوجی (ICT) کے استعمال میں استحکام اور تحفظ کو فروغ دینے کے لیے باہمی تعاون سے مؤثر اقدامات وضع کریں اور ان پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ ساتھ ہی، ان طریقوں سے گریز کیا جائے جو تسلیم شدہ طور پر نقصان دہ ہوں یا بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کر سکتے ہوں۔

(c) ریاستیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کا علاقہ جان بوجھ کر ایسے بین الاقوامی غیر قانونی اقدامات کے لیے استعمال نہ ہو جو ICT کے ذریعے انجام دیے جا رہے ہوں۔

(e) ریاستوں پر لازم ہے کہ وہ ICT کے محفوظ استعمال کو یقینی بناتے ہوئے انسانی حقوق کی کونسل کی قراردادوں 20/8 اور 26/13 (جو انٹرنیٹ پر انسانی حقوق کے تحفظ و فروغ سے متعلق ہیں) اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں 68/167 اور 69/166 (ڈیجیٹل دور میں پرائیویسی کے حق سے متعلق) کا احترام کریں، تاکہ آزادی اظہار سمیت تمام بنیادی انسانی حقوق کا مکمل تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

(f) کوئی ریاست ایسا کوئی ICT عمل نہ کرے اور نہ ہی اس کی حمایت کرے جو بین الاقوامی قانون کے تحت اس کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہو، خصوصاً ایسا عمل جو کسی ملک کے اہم بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچائے یا عوامی خدمات کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالے۔

(k) ریاستوں کو چاہیے کہ وہ کسی دوسری ریاست کے منظور شدہ ہنگامی ردعمل کے نظام — جیسے کمپیوٹر ایمرجنسی ریسپانس ٹیم (CERT) یا سائبر سیکیورٹی واقعہ رسپانس ٹیم — کے انفارمیشن سسٹمز کو نشانہ بنانے سے گریز کریں، اور نہ ہی ان کے خلاف کسی نقصان دہ سرگرمی کی جان بوجھ کر حمایت کریں۔ اسی طرح، اپنی ایمرجنسی ریسپانس ٹیموں کو کسی بھی قسم کی بین الاقوامی نقصان دہ کارروائی کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

ایک طرف زمینی حملے جاری ہیں اور دوسری طرف سائبر حملے ہونے کی افواہیں گرم ہیں. سائبر حملے نہ صرف آزادی اظہار اور صحافت جیسے بنیادی انسانی حقوق کو متاثر کرتے ہیں بلکہ وہ سچائی کو محدود اور بیانیہ یک طرفہ بنا دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، اگر تنصیبات جیسے بجلی، اسپتال، یا ایمرجنسی خدمات کو نشانہ بنایا جائے تو صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے، کیونکہ ان پر عام شہریوں کی زندگیوں کا انحصار ہے۔سائبر حملوں کے خوف سے فضائی حدود بند ہو نے کا امکان رہتا ہے. اس طرح‌کے تصادم کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے کچھ بنیادی اصول وضع کیے ہیں .

ریاستوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سائبر سیکیورٹی کو مضبوط بنائیں اور اپنے ڈیجیٹل وسائل کو جارحانہ مقاصد کے لیے استعمال ہونے سے روکیں۔ اگر سائبر دنیا میں غیر ریاستی عناصر حملے کریں اور حکومتیں خاموش رہیں، تو بین الاقوامی سطح پر اس کا خمیازہ ریاست کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

اسی طرح، اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق، سائبر ایمرجنسی ٹیموں (CERTs) کو غیر جانبدار مانا جاتا ہے، اور ان پر حملے یا ان کو اپنے جنگی مقاصد کے لیے استعمال سائبر ورلڈ میں عالمی اعتماد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

موجودہ پاک-بھارت سائبر کشیدگی صرف تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ ایک متبادل جنگی میدان ہے، جس کا غلط استعمال نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ دونوں ریاستوں پر لازم ہے کہ وہ ذمہ دارانہ رویے اختیار کریں تاکہ ایک پائیدار اور پرامن سفارتی راستہ ممکن ہو سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے