جب کسی ملک پر پڑوسی ملک جنگ مسلط کرتا ہے، تو اس کی قیادت کا سب سے اہم فرض قوم کو متحد کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اس بحران کا مقابلہ کر سکے۔ ایسے نازک وقت میں قیادت پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان کا ادراک ضروری ہے۔ قیادت کا کام صرف عوام کا حوصلہ بلند کرنا ہی نہیں، بلکہ انہیں درست معلومات فراہم کرنا، داخلی اختلافات کم کرنا اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنا بھی ہے۔
سب سے پہلے، قیادت کا فرض ہے کہ وہ قوم کا حوصلہ بلند کرے اور انہیں یہ باور کرائے کہ یہ مشکل وقت ہے، مگر ملک کے تحفظ کے لیے ہم سب کا متحد رہنا ضروری ہے۔ اس دوران قیادت کی زبان اور پیغام میں یکجہتی اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ قوم دشمن کے سامنے ایک مضبوط محاذ تشکیل دے سکے۔
جنگ کے دوران قیادت کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ وہ قوم کو صحیح اور بروقت معلومات فراہم کرے تاکہ عوام افواہوں یا غلط فہمیوں کا شکار نہ ہوں۔ اس مقصد کے لیے میڈیا کا مؤثر استعمال ضروری ہوتا ہے۔
وزیراعظم اور دیگر رہنماؤں کو سیاسی جماعتوں، فوج اور مختلف طبقوں کو ایک ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ یہ وہ وقت ہے جب ملک کے تمام وسائل اور توانائیاں یکجا ہو کر جنگ کے خلاف استعمال کی جانی چاہئیں، تاکہ ملک میں داخلی اختلافات کم ہوں اور ملک کی مجموعی قوت ایک نقطے پر مرکوز ہو۔
قیادت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے جنگ کے دوران انسانی حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کرے۔ ان کے اقدامات میں انصاف اور انسانیت کی اقدار کو ہمیشہ مقدم رکھا جائے، اور ان کی حکمت عملی میں قومی مفاد اولین ترجیح ہو۔
یہ وقت ہے جب قیادت کو عوام کو یہ باور کرانا ہوگا کہ یہ جنگ صرف بقا کے لیے نہیں، بلکہ ملک کے مستقبل کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔ قیادت کو عوام کی مشکلات اور پریشانیوں کو سمجھتے ہوئے انہیں اپنے اقدامات میں شامل کرنا چاہیے، تاکہ قوم کا عزم اور حوصلہ بڑھ سکے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ قیادت تمام سیاسی اور سماجی طبقات کو ایک مشترکہ مقصد کے تحت اکٹھا کرے، اور نہ صرف جنگی حکمت عملی بلکہ مفاہمت اور ہم آہنگی کا پیغام دے، تاکہ ہر طبقہ یہ محسوس کرے کہ یہ جنگ سب کی جنگ ہے۔
جب سرحدوں پر دشمن موجود ہو، توپوں کی گونج سنائی دے رہی ہو، اور افواجِ پاکستان مادرِ وطن کے دفاع میں سرگرم ہوں، تو اس وقت قوم کو ایسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو صرف حکومتی عہدے پر نہ ہو بلکہ قوم کے دلوں میں بھی براجمان ہو۔ قوم کو ایسی قیادت چاہیے جو نہ صرف احکامات دے، بلکہ اعتماد، حوصلہ اور عزم بھی تقسیم کرے، تاکہ ہر شہری میں یہ احساس پیدا ہو کہ قیادت ان کے ساتھ ہے۔
اس موقع پر وزیراعظم کو قوم کو اعتماد میں لینے کے لیے ایک بار خطاب تو کرنا چاہیے تھا، تاکہ قوم کو یقین ہو کہ قیادت ان کے ساتھ ہے اور وہ اس مشکل گھڑی میں ان کی رہنمائی کر رہا ہے۔
مگر بدقسمتی سے موجودہ قیادت اس کٹھن گھڑی میں اس معیار پر پورا نہیں اُتری۔ بھارت کی حالیہ اشتعال انگیزیوں اور لائن آف کنٹرول پر دراندازیوں کے باوجود، قوم نے افواجِ پاکستان کو اپنا فرض بخوبی ادا کرتے دیکھا، لیکن سیاسی قیادت کی طرف سے کوئی واضح اور جرأت مندانہ اقدام نظر نہیں آیا۔
کیا یہ قیادت ہے؟ کیا یہی وہ قیادت ہے جس کی ایک بائیس کروڑ کی قوم کو جنگ جیسے ماحول میں ضرورت ہوتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ قیادت صرف انتظامی امور یا منصوبہ بندی کا نام نہیں، بلکہ یہ قوم کے جذبات، اعتماد اور حوصلے کو سنبھالنے کا نام ہے۔ جیسے افواجِ پاکستان مورچوں پر مضبوط کھڑی ہیں، ویسے ہی وزیراعظم کو بھی سیاسی میدان میں ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے تھا۔
قوم کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو نہ صرف ان کے ساتھ کھڑا ہو، بلکہ دشمن کو للکارتے ہوئے ایک نئی توانائی پیدا کرے۔ بدقسمتی سے موجودہ قیادت سے ایسی توقع باندھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
یہ کالم صرف تنقید کے لیے نہیں لکھا گیا، بلکہ یہ ایک پکار ہے جو بائیس کروڑ عوام کے دل سے نکل رہی ہے: "ہمیں ایک لیڈر چاہیے، محض حکمران نہیں۔” جب جنگ کا خطرہ ہو، قوم کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے ساتھ ہو، نہ کہ صرف اپنی کرسی تک محدود ہو۔