لڑائی جھگڑوں اور باہمی الجھنوں سے انکار: ایک لمبی، پُرسکون اور خوش گوار زندگی کا راز

"ایک ہفتہ قبل، گینز ورلڈ ریکارڈ کی جانب سے تصدیق شدہ دنیا کی سب سے طویل عمر پانے والی شخصیت برازیل کی اینا کانابارو لوکاس، بدھ کے روز 117 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ کانابارو کی وفات کے بعد، اب یہ اعزاز برطانیہ کی ایتھل کیٹرہام کو حاصل ہو گیا ہے، جن کی عمر اس وقت 115 سال کے آس پاس ہے۔

ایتھل کیٹرہام نے طویل عمر کے راز کے بارے میں بتایا کہ وہ کبھی کسی سے بحث نہیں کرتیں۔ انھوں نے ساؤتھ ویسٹ لندن کے علاقے سَرے کے ایک نرسنگ ہوم میں بتایا کہ "میں کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتی، دوسروں کو سنتی ہوں اور وہی کرتی ہوں جو مجھے پسند ہو”۔

ایتھل کیٹرہام 21 اگست 1909 کو جنوبی انگلینڈ کے گاؤں "شیپٹن بیلینجر” میں پیدا ہوئیں۔ وہ آٹھ بہن بھائیوں میں ساتویں نمبر پر ہیں۔ 1927 میں 18 سال کی عمر میں وہ بچوں کی آیا کے طور پر کام کرنے بھارت گئیں، جہاں انھوں نے ایک برطانوی خاندان کے ساتھ تین سال گزارے۔ واپسی پر 1931 میں ایک عشائیے کے دوران ان کی ملاقات نورمن نامی شخص سے ہوئی، جو برطانوی فوج کے آفیسر تھے۔ ایتھل نے نورمن سے شادی کرلی اور ان کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ ایتھل نے بیٹیوں کی پرورش برطانیہ میں کی۔ ان کے شوہر نورمن 1976 میں وفات پا گئے”۔

ایتھل کیٹرہام کی زندگی یہ ثابت کر رہی ہے کہ زندگی کی صحت، عافیت، طوالت اور مسرت پر پُرامن اور پُرسکون طرزِ زندگی کو بہت زیادہ عمل دخل حاصل ہے۔ لڑائی جھگڑوں، شور شرابے، باہمی الجھنوں اور کشمکش سے دل و دماغ، خون و گردش خون اور تمام دوسرے اعضاء کی صحت، کارکردگی اور پائداری بے حد متاثر ہوتی ہے۔ پُرسکون انداز اختیار کرنے سے ہمارے پورے وجود کو ایک خاص قسم کا سکون اور اطمینان میسر آتا ہے اور یوں ہمارے لیے زیادہ بہتر انداز سے زندگی بسر کرنا ممکن ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر لڑائی جھگڑوں، شور شرابوں نیز باہمی الجھنوں اور کشمکش کے بد اثرات کا اپنی زندگی اور اس کے تحفظ کے تناظر میں جائزہ لیں تو ہم کبھی ان علتوں کے قریب بھی ہونا پسند نہیں کریں گے۔ ہم طویل لڑائی جھگڑوں کے بجائے چند لمحے صبر اور خاموشی کو ترجیح دیں گے۔

انسانی تعلقات زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں، لیکن یہی تعلقات بعض اوقات تنازعات، لڑائی جھگڑوں اور الجھنوں کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے نہ صرف تعلقات کو خراب کرتے ہیں بلکہ اپنے ذہنی سکون اور جسمانی صحت پر بھی سنگین منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر ہم باہمی اختلافات کو برداشت کرنے، دوسروں کو معاف کرنے اور ہر طرح کے تنازعات سے بچنے کی عادت اپنائیں، تو ہماری زندگی بے حد پُرسکون، خوش گوار اور طویل و عریض ہو سکتی ہے۔ ہم اپنی وہ توانائی جو لڑائی جھگڑوں اور کشمکش میں صرف ہو رہی ہے یہ اگر بچا کر ہم ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے اور افہام و تفہیم میں لگا دیں تو بخدا نتائج انتہائی خوش گوار اور بہترین ہو سکتے ہیں۔

لڑائی جھگڑے اور کثرت سے تنازعات انسانی زندگی پر کئی طریقوں سے منفی اثرات ڈالتے ہیں آئیے چند ایک کا تذکرہ کرتے ہیں:

مثلاً لڑائی جھگڑے سے دماغی تناؤ بڑھتا ہے، جس سے ڈپریشن، بے چینی اور دیگر سنگین نفسیاتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس طرح بار بار کے لڑائی جھگڑوں سے خاندان، دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ تعلقات سخت کشیدہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح تنازعات دل کی بیماریوں، بلڈ پریشر اور مدافعتی نظام کی کمزوری کا بھی سبب بن سکتے ہیں، اس طرح لڑائی جھگڑوں میں الجھ کر انسان اپنی قیمتی توانائی اور وقت ضائع کر دیتا ہے جو کہ زیادہ بہتر کاموں میں استعمال ہو سکتا تھا۔

زندگی میں یہ خیال کرنا کہ سرے سے لڑائی جھگڑوں کی نوبت ہی نہ ائے تو یہ بھی حقیقت پسندانہ خیال نہیں نوبت آئے گی، وجوہات پیدا ہوں گی، خیالات میں اختلافات رونما ہوں گے، مفادات کہیں نہ کہیں ٹکرائیں گے اور ایک دوسرے کے لیے ناپسندیدہ جذبات جا بجا سر اٹھائیں گے لیکن ایسے تمام واقعات اور لمحات کے دوران صبر و تحمل، برداشت اور خاموشی سے کام لینا ہوگا۔ آئیے چند وجوہات پر نظر ڈالتے ہیں جو کہ لڑائی جھگڑوں کا باعث بنتی ہیں۔ سب سے پہلے اپنے موقف کو صحیح طریقے سے نہ سمجھانا یا غلط انداز میں پیش کرنا کسی بھی تنازعے کا بالکل ابتدائی سبب ہے۔ اس طرح دوسروں سے بہت زیادہ توقعات رکھنا بھی اہم وجہ ہے۔ اس طرح اپنی بات منوانے کی ضد اور دوسروں کی رائے کو تسلیم نہ کرنا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس طرح غصہ، حسد یا تکبر جیسے منفی جذبات پر قابو نہ پانا بھی معاملات کو سکتا ہے۔ اس طرح پہلے سے موجود کینہ یا پرانی شکایات کو بار بار یاد کرنا بھی جذبات میں ناپسندیدگی کا باعث ہے۔

آئیے چند ایسے طریقوں کی نشان دہی کرتے ہیں کہ جن کو اختیار کر کے ہم نہ صرف لڑائی جھگڑوں سے بچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں بلکہ اس سے ایک پُرسکون زندگی گزارنا بھی ممکن ہوتا ہے۔

برداشت اور رواداری اپنائیں

ہر انسان کی اپنی سوچ، عادات اور خیالات ہوتے ہیں۔ دوسروں کے اختلافات کو برداشت کرنا اور ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کرنا وغیرہ تنازعات کو کم کرتا ہے۔ اس طرح بات چیت کو صاف، واضح اور شائستگی سے سامنے رکھیں۔ اس کے علاؤہ دوسروں کو سنیں اور اس کا جواب احترام اور خیر خواہی سے دیں۔ اس طرح الزام تراشی اور تلخ کلامی سے مکمل گریز کریں، کینہ اور انتقام کی بجائے معافی دینے کا رویہ اپنائیں۔ معاف کرنا نہ صرف دوسروں کے دل جیتتا ہے بلکہ خود انسان کو بھی ذہنی سکون دیتا ہے۔ اس طرح غصہ آنے پر گہری سانسیں لیں، خاموش ہو جائیں یا جائے وقوعہ سے ہٹ جائیں اور ہاں ایسے وقت میں جذباتی فیصلے کرنے سے بھی بچیں۔ اس طرح کوئی بھی مسئلہ اپنے دل پر نہ لیں بلکہ حل پر برابر توجہ مرکوز رکھیں۔ ایسے مواقع پر ہمیشہ مشترکہ حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اگر تنازعہ بڑھ جائے تو کسی معتمد شخص کی ثالثی حاصل کریں۔

منفی خیالات کی بجائے مثبت پہلوؤں پر توجہ دیں۔ ہر شخص میں کچھ نہ کچھ اچھائی ضرور ہوتی ہے، اسے تلاش کریں اور اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کو تسلیم کریں اور انہیں بہتر بنانے کی مقدور بھر کوشش کریں۔ جو شخص اپنی اصلاح بروقت کرتا ہے، وہ دوسروں کے ساتھ الجھنے سے بچ جاتا ہے۔

لڑائی جھگڑوں سے انکار درحقیقت ایک عقلمندانہ آپشن ہے جو ہمیں ایک صحت مند، پُرسکون اور خوش گوار زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر ہم برداشت، رواداری، معافی اور تعمیری روابط جیسی خوبیاں اپنائیں، تو نہ صرف ہمارے تعلقات بہتر ہوں گے بلکہ ہم خود کو ایک مثبت، پُرسکون اور پرامن ماحول میں پائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے