جنگ اناؤں کا کھیل نہیں ہے!

کسی بھی معقول تعریف (definition) کے مطابق، جنگ ایک وحشیانہ مگر حکمت عملی والا ہتھیار ہے جو دشمن کے خلاف مزاحمت یا دشمن کی جوابی کارروائی کے وسائل کو کمزور کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ کوئی تماشا نہیں، نہ ہی "ہدفوں” کے اعداد و شمار کا میدان ہے، اور نہ ہی کسی زخمی انا کو تسکین دینے کا ذریعہ۔

مگر بار بار، ریاستیں جنگی مہم جوئی کرتی ہیں واضح حکمت عملی کے بجائے دکھاوے، اشتعال یا اپنی بات منوانے کے لیے . اکثر اپنے عوام کو مطمئن کرنے کو، دشمن کو نہیں۔ یہ جنگ دراصل دشمن کی فوجی طاقت کو کمزور کرنے یا اُسے سٹریٹیجی کے لحاظ سے کمزور (degrade) کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے عوام پر اپنی حکمرانی کا جواز بنانے کے لیے اور اُن پراپنی پالیسیاں مُسلّط کرنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔

کل رات انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحد پار حملے — ایک نے "لانچ پیڈز” کو نشانہ بنایا، دوسرے نے فوجی چوکیوں یا لڑاکا طیاروں کو ہدف بنایا — شاید یہ سیاسی ڈرامہ تو پیش کرتے ہیں، مگر حکمت عملی کے لحاظ سے کیا حاصل ہوا؟ کیا کسی کا فوجی ڈھانچہ کمزور ہوا؟ کیا رکاوٹ کی قوت میں تبدیلی آئی؟ یا دونوں صرف نشانوں کا حساب لگا رہے ہیں اور اپنے گھریلو عوام کی تالیاں بٹورنے کے لیے ویڈیوز کا تبادلہ کر رہے ہیں؟

اگر مقصد زمینی حقائق بدلنا تھا، تو دونوں ناکام نظر آتے ہیں۔ اگر دھمکانا مقصود تھا، تو دونوں اب بھی اُسی جگہ کھڑے۔ انڈیا اگر دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنا چاہتا تھا تو آج وہ نہ صرف مقبولیت حاصل کر رہے ہیں بلکہ ایک ریاست کی پوری طاقت اُن کی حفاظت کرنے کے لیے نکل آئی ہے۔ اور اگر امن مطلوب تھا — تو ہم کل سے بھی زیادہ امن سے دور ہو گئے ہیں۔ یہ آمنے سامنے کے حملے قومی مفاد کے بجائے حکمرانوں کی اناؤں کا مسئلہ بن گیا ہے جسے پروپیگنڈے کے ذریعے قومی اناؤں کھیل بنا دیا گیا ہے۔

انڈیا میں ان حملوں سے پہلے پہلگام کے قتلِ عام کا بدلہ لینے کے مطالبات کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ انڈیا نے اُن انتہا پسند مذہبی تنظیموں کے ٹھکانوں پر 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب ہدف بنا کر حملے کیے جن کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ انھوں نے قتل عام کیا تھا۔ کتنا نقصان ہوا کون مرا، کچھ پتہ نہیں، لیکن حملوں کے بعد انڈیا نے کہا کہ انتقام لے لیا گیا۔ اس سے زیادہ بے معنی کوئی دعوٰی نہیں ہو سکتا۔

انڈیا-پاکستان جنگوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ حقیقت میں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ 1947–48 کی جنگ نے مسئلہِ کشمیر کو جامد کر دیا۔ 1965 کی جنگ جہاں سے شروع ہوئی، وہیں اقوام متحدہ کی جنگ بندی اور کوئی علاقائی تبدیلی کے بغیر تعطل پر ختم ہوئی — 1971 کی جنگ نے بنگلہ دیش تو بنا دیا، مگر پاکستان کی فوج نے کبھی اس سے سبق حاصل نہیں کیا اور نہ اس کے سیاسی اسباب کو تسلیم نہیں کیا۔

1999 کی کارگل جنگ ایک ایسی فوجی مہم جوئی تھی جس میں نہ کوئی سیاسی فائدہ تھا نہ فوجی فائدہ — صرف نقصان، سفارتی اور عسکری دونوں حوالوں سے۔ ہر معاملے میں ہزاروں لوگ مرے، مگر خطہ اُسی جگہ واپس لوٹ آیا، سٹیٹس کو برقرار رہا۔ اگر یہ فتح تھی، تو ناکامی کسے کہتے ہیں۔ اگر یہ حکمت عملی (strategy) تھی، تو انتہائی بے ہودہ تھی۔

تاریخ اور بھی بڑے سبق دیتی ہے۔ 2003 میں امریکہ کا عراق پر حملہ — جس کا آغاز وسیع سطح پر تباہی پھیلانے والے کے ہتھیاروں کے جھوٹے بہانے پر ہوا — ایک تباہ کن حکمت عملی (strategy) ثابت ہوئی۔ صدام کو تو گرایا، مگر خلا میں داعش نے جنم لیا، پورا خطہ غیر مستحکم ہوا، اور امریکہ نے جن سلامتی کے طویل دعوؤں کے مقاصد کا اعلان کیا تھا جو خاک میں مل گئے۔ حکمت عملی کا فائدہ: صفر۔ قیمت: کھربوں ڈالر اور لاکھوں انسانوں کی زندگیاں۔

1979 میں سوویت یونین کا افغانستان میں فوجی مداخلت جو ایک اتحادی حکومت کو "مستحکم” کرنے کے لیے تھی، مگر یہ اتحادی ملک اُس کا ویتنام بن گیا۔ دس سال بعد، طویل جنگ کے بعد پِٹ کر وہاں سے باہر نکلا — کچھ حاصل نہیں ہوا، البتہ عالمی تنہائی اور اندرونی بغاوت کا شکار ہوا۔ پاکستان کو یہ سبق یاد ہونا چاہیے: کیونکہ اس نے سویت فورسز کے خلاف امریکہ کی حمایت میں کچھ ڈالروں کے عوض مجاہدین اور خفیہ فوجی خدمات مہیا کی تھیں۔

جنوبی ایشیا میں ہی فرق واضح ہے۔ 1999 کی کارگل جنگ میں بھارت کا ردعمل واضح تھا: مقبوضہ علاقہ واپس حاصل کرو، تصادم کو بڑھنے مت دو، بین الاقوامی حمایت حاصل کرو۔ مشن مکمل۔ دوسری طرف پاکستان کی کارگل مہم جوئی خفیہ منصوبہ بندی سے شروع ہوئی اور محض علامتی فتح کے لیے کی گئی۔ نتیجہ؟ سفارتی ذلت، حکمت عملی کی ناکامی، اور اندرونی تقسیم۔ یہ سب کچھ سویلین-ملٹری رسہ کشی کا شاخسانہ تھا — جس کا حتمی نتیجہ قومی وقار کی تنزلی کے سوا کچھ نہ تھا۔

کل رات کے تبادلے میں دونوں ممالک کو پریس ریلیزز اور ہیش ٹیگز کے علاوہ اور کیا ملا؟ پاکستان نے نشانے بنائے۔ بھارت نے "دہشت گرد لانچ پیڈز” کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ مگر کسی کا بھی سٹریٹجک مقام کمزور نہیں ہوا سوائے اس کے کہ انڈیا پاکستان پر کئی اہداف کو نشانہ بنایا۔ کوئی جنگی مقصد طے نہیں ہوا۔ کوئی سیاسی حل قریب نہیں آیا۔ جو بچا ہے وہ ایک خطرناک وہمہ ہے — وہ یہ کہ عین ہدف پر میزائل لگا مگر یہ کسی مربوط پالیسی کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ہے۔

اگر جنگ "سیاست کا دوسرے ذرائع سے تسلسل” ہے، جیسا کہ جدید جنگ کے فلسفے کے بانی کارل وون کلازویٹز نے کہا، تو سیاست پہلے آتی ہے — اور سیاست ہی طاقت کے مقصد کو بیان کرتی ہے۔ مگر جب جنگ ہیڈلائنز اور ہیش ٹیگز کا کھیل بن جائے، جب میزائل داغنا مردانگی کا ثبوت سمجھا جائے، تو ہم مکروہ بے ہودگی کی گہرائی میں گرتے چلے جاتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں جنگ کسی ویڈیو گیم کا نام نہیں ہے۔ نہ ہی یہ ٹِک ٹاک یا انسٹاگرام فالوورز کی دوڑ ہے۔ دونوں طرف جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے، ایک غلط قدم کسی میڈیا کی خبر بننے کے چکر سے کہیں زیادہ تباہی لا سکتا ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کو خود سے پوچھنا چاہیے: حملے کے پیچھے حکمت عملی کیا ہے — اور کل ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟

کیا دونوں طرف تشہیر کی یہ جنگ آخرکار جوہری جنگ کا باعث بن جائے گی؟ دونوں اطراف کے حکمران اپنی عوام کے سامنے ہیرو بننا چاہتے ہیں، نہ کہ عوامی بہبود کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ نشانے گننا حکمت عملی نہیں، محض تماشہ ہے۔ اور جو اقوام اس بنیادی فرق کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں، ان کی ظاہری ‘فتوحات’ درحقیقت تاریخ کے کٹہرے میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے