کہتے ہیں کہ جمہوریت ایک رویے کا نام ہے۔ ہمارے گھر میں بھی ایک قسم کی "جمہوری بادشاہت” ہے۔ نو بھائی، سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ، تندرست، ہینڈسم (چاہے دل کے بہلانے کو ہی کہہ لیں)، اور جذبۂ خدمتِ خلق سے سرشار۔ لیکن مجال ہے جو کوئی اپنا دماغ استعمال کر لے! کیونکہ دماغ تو دراصل ایک ہی ہے… اور وہ والد صاحب کے سر پر نصب ہے۔
ہم سب بھائی کاروبار کے میدان میں ایسے کھڑے ہیں جیسے پویلین میں بیٹھے ریزرو کھلاڑی، جنہیں کپتان (یعنی والد صاحب) فیلڈ میں آنے ہی نہیں دیتے۔ چاہے فلور مل ہو یا شوگر مل، چاہے پراپرٹی ہو یا ہاؤسنگ سوسائٹی، ہر جگہ صرف ایک ہی نام چمکتا ہے، اور وہ ہے… والدِ محترم کا! ہم؟ ہم تو بس ایک دستخط شدہ تنخواہ نامہ لیے دفتر میں یوں گھومتے ہیں جیسے کمرشل بینک کے وہ ملازم جو صرف رسیدیں دیتے ہیں، فیصلے نہیں۔
دفتر کی کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہم نے فیصلہ سازی کا فن اتنا سیکھ لیا ہے کہ اگر کبھی والد صاحب کسی فیصلے کا بوجھ ہم پر ڈال دیں تو ہم گھبرا جاتے ہیں۔ ایک بار بڑے بھائی نے ہمت کر کے کہا، “ابا جی! ایک نئی کمپنی رجسٹر کروانے کی اجازت دیجیے،” تو والد صاحب نے ایک طویل سانس لی، عینک اتاری، اور فرمایا، “کمپنی تم نے چلانی ہے یا میں؟” اس کے بعد سے وہ بھائی اب صرف پنکھے کی رفتار اور چائے کی مٹھاس پر فیصلے کرتا ہے۔
جب بھی کوئی بھائی اپنے خوابوں کا چھوٹا سا ٹھیلہ لگانے کی کوشش کرتا ہے، والد صاحب اسے بھی اپنی تجارتی سلطنت میں ضم کر لیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر تو لگتا ہے جیسے ہم سب نے بزنس نہیں، بلکہ "کاروباری غلامی” کے لیے ایم بی اے کیا ہو۔ وہ خواب جن میں ہم خود کو باس کے طور پر دیکھتے تھے، اب خواب ہی رہ گئے ہیں—وہ بھی والد صاحب کی اجازت کے محتاج۔
مگر درد تو تب ہوتا ہے جب ہماری ذاتی ضروریات بھی رعایا کی طرح دیکھی جاتی ہیں۔ جتنا دے دیا، بس اسی میں خوش رہو۔ یعنی "سانس چلے، بندہ چلتا رہے، اور منہ بند رکھے”۔ کسی نے پوچھا: جیب میں کتنا رکھا ہے؟ عرض کیا: اتنا کہ نہ خواہشیں جاگیں، نہ غیرت۔ ایک بھائی نے موبائل اپ گریڈ کرنے کی بات کی تو والد صاحب نے یوں دیکھا جیسے اس نے نیوکلیئر کوڈ مانگ لیے ہوں۔
ایسے میں سوچتا ہوں، ہم بھائی آخر نو کیوں ہیں؟ شاید قدرت کو یقین نہیں آیا کہ ایک بھائی سے کچھ نہ ہو پائے گا، تو آٹھ اور بھیج دیے۔ لیکن ہم سب مل کر بھی اپنی قسمت کے دروازے پر لگا تالا نہیں کھول سکتے، کیونکہ اس کی چابی بھی، جی ہاں… والد صاحب کے پاس ہے۔ اور تو اور ہمارے شناختی کارڈ بھی والد صاحب کے لاکر میں رکھے ہیں۔
ایک دن جب ہم سب بھائی بیٹھے اور سوچنے لگے، “آخر کب تک؟” لیکن اس سوچ کا انجام بھی وہی ہوا جو ہر غیر مجاز سوچ کا ہوتا ہے—خاموشی اور چائے کا ایک اور کپ۔
لیکن ۔ ۔ ۔ ۔۔ ایک دن آئے گا جب ہم سب بھائی مل کر اپنے حصے کا سورج مانگیں گے۔ کیونکہ نو بھائی اگر ایک زبان ہو جائیں، تو شاید بادشاہت کو بھی جمہوریت کا مطلب سمجھ آ جائے۔ اور شاید اس دن، والد صاحب خود ہمیں ایک کرسی پیش کریں گے—بغیر بازوؤں کے، پر کرسی تو ہو گی!