بابوں، پیروں، مرشدوں کی ڈیجیٹل موت

ایک وقت تھا جب روحانی بابوں، پیروں اور مرشدوں کے قصے سن کر سنجیدہ سے سنجیدہ بندے کی ریڑھ کی ہڈی میں بھی ایمان کی ایک لذت بھری جھرجھری سی دوڑ جاتی تھی۔ ایک بزرگ نے ہوا میں اڑان بھری، دوسرے نے پہاڑ کو دائیں سے اٹھا کر بائیں رکھ دیا، تیسرے نے دشمن کے ٹینک کو "فُو” کر کے ٹافی بنا دیا، اور چوتھے نے پانی کو دودھ میں تبدیل کر کے محلے بھر کو ناشتہ کرا دیا (کسی نے چکھا نہیں، مگر سب مانتے تھے)۔

یہ کرامات کا وہ سنہری دور تھا جب یقین کے لیے دلیل نہیں، صرف "بابا جی، پیر صاحب، یا مرشد کریم نے فرمایا” ہی کافی تھا۔ نہ گواہی کی ضرورت، نہ ویڈیو پروف کی۔ بابا جی آنکھیں بند کرتے تو عقیدت مندوں کی آنکھیں کھل جاتیں۔ پیر صاحب کسی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے تو دل صاف ہو جاتا، مرشد کسی کے کان میں کچھ پھونکتے تو پیٹ کی چربی پگھل جاتی۔ غرض یہ کہ معجزہ بہ آسانی دستیاب تھا—بس ایک چیز نہیں تھی: کیمرہ۔

پھر اچانک دنیا بدل گئی۔
موبائل آ گیا۔
اور موبائل کے ساتھ وہ ظالم کیمرہ بھی آ گیا۔
پھر اس کیمرے کے ساتھ "ریکارڈ” کا بٹن آ گیا۔
بس وہ دن اور آج کا دن، بابوں، پیروں اور مرشدوں کی دنیا اندھیر ہو گئی۔

پہلے بابا جی آنکھیں بند کر کے فرماتے: "ابھی ابھی ساتویں آسمان کی سیر سے واپس آیا ہوں۔”
اب عقیدت مند کیمرہ آن کر کے پوچھتا ہے: "بابا جی، وی لاگ کب اپلوڈ ہوگا؟”

پہلے مرشد صاحب ہاتھ ہلاتے، شفا مل جاتی۔
اب ہاتھ ہلائیں تو ویڈیو بن جاتی ہے، اور بعد میں واٹس ایپ گروپ میں تجزیہ ہوتا ہے:
"یہ شفا نہیں، کٹ پیسٹ ایڈیٹنگ ہے!”

پہلے کرامتیں "عقیدت” کے پرندے پر سوار ہو کر دور دور تک اڑتی تھیں،
اب وہی پرندہ یوٹیوب پر ڈی مونٹائز ہو جاتا ہے۔

بابے، پیر، مرشد بیچارے الجھن میں ہیں۔
کیمرہ آن ہو تو کرامت بند،
کیمرہ آف ہو تو یقین بند۔

اب تو چلہ کشی چھوڑ کر وہ یوٹیوب کے الگورتھم کے چلے کاٹ رہے ہیں۔
صبح شام دعا مانگتے ہیں:
"یا اللہ! سبسکرائبر بڑھا دے، ویڈیوز وائرل کرا دے، اور شیئر کرنے والوں کو جنت الفردوس میں ہائی ریزولوشن جگہ عطا فرما!”

نئی نسل کا ایمان اب "ویڈیو ایویڈینس” پر ہے۔
کہتے ہیں: "اگر بابا جی، پیر صاحب یا مرشد محترم کی ویڈیو نہیں، تو کرامت بھی نہیں!”
اور اگر ویڈیو ہے، تو فائنل تبصرہ ہوتا ہے: "ایڈیٹنگ ہے، بھائی، ایڈیٹنگ!”

اور جب سے کیمرہ آیا ہے، تب سے ایک اور دلچسپ تبدیلی یہ آئی ہے کہ کوئی بزرگ اب قبر سے نکل کر دو خاندانوں میں صلح کروانے نہیں آتے۔
نہ ہی کوئی قبر کی مٹی اڑ کر کسی دشمن پر حملہ آور ہوتی ہے، اور نہ ہی قبر کے اندر سے آواز آتی ہے کہ "جا بیٹا، تجھے معاف کیا!”
بے شک، اللہ والے اپنی قبروں میں پر سکون نیند سو رہے ہیں—مگر لوگ ہیں کہ ان کی نیند میں بھی دخل دینے سے باز نہیں آتے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ ان نیک، پارسا اور بے ضرر بزرگوں کے بارے میں بھی عجیب و غریب قصے مشہور کر کے ان کی اصل شان کم کر دی جاتی ہے۔
اپ اجمیر چلے جائیں—وہی مقام جہاں ایک جلیل القدر بزرگ، خواجہ معین الدین چشتیؒ، اپنی قبر میں آسودۂ خاک ہیں اور دنیا انہیں "غریب نواز” کے لقب سے جانتی ہے۔
لیکن جیسے ہی آپ اس قبر کی زیارت کو جاتے ہیں، تو قبر کے باہر اتنے زیادہ غریب، فقیر، مجاور، کیئرٹیکر، عطیہ باکس، چندہ رسیدیں، اور جھنڈے نظر آتے ہیں کہ دل چاہتا ہے واپس جا کر کسی وی لاگر کو کہیے کہ بھائی، اس منظر کو ضرور کور کرو—کیونکہ یہاں سب غریب نواز سے مانگنے کے بجائے، زیارت کرنے والوں سے مانگتے ہیں۔

وہ بزرگ جن کے نام پر لاکھوں دلوں کو سکون ملتا ہے، ان کی قبر کا سارا انتظام اب مجاوروں کے بینک اکاؤنٹس اور دکانوں کی زینت بن چکا ہے۔
غریب نواز کی عظمت کو سلام، مگر ان کے "برینڈ مینیجرز” کا کیا کیجیے جو روحانیت کو ریٹیل میں بدل چکے ہیں!

یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے ہی کیمرہ آیا، کرامت رخصت ہوئی۔
جیسے ہی موبائل عام ہوا، روحانیت نے استعفیٰ دے دیا۔
اور جیسے ہی ہر جیب میں کیمرہ آیا، ہر بابا، پیر اور مرشد جی "ریٹائرمنٹ پلان” پر چلے گئے۔

لیکن ان سب کے باوجود، ہم ان بزرگوں کا دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں
جنہوں نے کیمرہ نہ ہونے کے سنہری دور میں ہمیں ایمان افروز، دل فریب،
اور بعض اوقات دماغ گُھمانے والی کہانیاں سنائیں۔

بابا جی، پیر صاحب، مرشد محترم—اگر آپ یہ پڑھ رہے ہیں،
تو پلیز، کرامت کی کوئی نئی قسط ضرور ڈالیں۔
ہم نے چینل کو سبسکرائب کر کے گھنٹی بجا رکھی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے