ماؤں کا عالمی دن؛ ماں، محبت کا پہلا اور آخری نام

ماں… یہ لفظ محض تین حروف کا مجموعہ نہیں بلکہ پوری کائنات کی وسعت اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں مئی کے دوسرے اتوار کو ’’یومِ مادر‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ ماں کی محبت، قربانی اور شفقت کسی ایک دن کی محتاج نہیں۔ ماں کا وجود ایک ایسا بےمثال احساس ہے جسے نہ تو لفظوں میں قید کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تحریروں کی انتہا اس کے مقام کا احاطہ کر سکتی ہے۔ جب ایک عورت ماں بنتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اس کی تمام ترجیحات، خواہشیں اور خواب، ایک مرکز پر سمٹ آتے ہیں۔ اُس مرکز کا نام ’’اولاد‘‘ ہے۔ وہ اپنے آپ کو بھول کر، اپنے آرام و سکون کو پسِ پشت ڈال کر، صرف اپنے بچوں کے لیے جیتی ہے۔ اس کی محبت بےلوث ہے، اس کی قربانی بےحد و حساب ہے، اور اس کی دعاؤں کی تاثیر آسمانوں تک پہنچتی ہے۔ ماں کی خوبصورتی کسی ظاہری نقش و نگار میں نہیں بلکہ اس کے دل کی وسعت، اس کے لہجے کی نرمی اس کے قدموں تلے چھپی جنّت میں جھلکتی ہے۔ بلاشبہ، ہر ماں خوبصورت ہے، کہ وہ محبت کی سب سے پاکیزہ اور ارفع ترین تصویر ہے۔

ماں پر لکھنا ایک ایسا سفر ہے، جس میں قلم تھک جاتا ہے، سیاہی ختم ہو جاتی ہے، لیکن ماں کی عظمت کا باب مکمل نہیں ہوتا۔ ماں کی تعریف میں جب سوچنے بیٹھا تو اندازہ ہوا کہ یہ عنوان نہیں سمندر ہے، جس کے آغاز اور کنارے کا بھی سمجھ نہیں آتا کہ اس عنوان کا کہاں سے آغاز کروں؟ کون سا پہلو پہلے اُجاگر کروں؟ محبت، قربانی، صبر، دعا، تربیت، یا پھر اس بے مثال شفقت کو بیان کروں جو ماں کی شخصیت کا حسن ہے؟

اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو جتنے رشتے عطا کیے، ان میں سب سے مقدس، سب سے بلند و بالا مرتبہ رشتہ ”ماں“ کا ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جس کی گود میں انسانیت نے پہلا سبق سیکھا، جس کے لمس میں شفا ہے، جس کی دعاؤں میں کامیابیوں کی ضمانت ہے۔ دنیا کے ہر انسان نے کبھی نہ کبھی ماں کی محبت اور قربانی کو محسوس ضرور کیا ہے، اور ہر قوم، ہر نسل ماں کے مقام کی معترف ہے۔ ماں کی عظمت کو کسی ایک دن میں قید کرنا ممکن نہیں، تاہم دنیا بھر میں مئی کے دوسرے اتوار کو ’’یومِ مادر‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ اس عظیم رشتے کو خراجِ تحسین پیش کیا جا سکے۔ مدرز ڈے (Mother’s Day) کی بنیاد 1908ء میں اینا جاروس (Anna Jarvis) نے اپنی والدہ کی یاد میں رکھی، جب اُس نے امریکہ کی ریاست ویسٹ ورجینیا کے شہر گریفٹن میں پہلی بار یہ دن منایا۔ آج وہاں ایک یادگار بھی موجود ہے جو ماں کی عظمت کی علامت ہے۔
لیکن ماں کی عظمت ہمیشہ سے انسانی تاریخ کا حصہ رہی ہے، مگر دینِ اسلام نے چودہ صدیاں پہلے ماں کے قدموں تلے جنت (یعنی ماں کی خدمت اور فرمانبرداری) کی بشارت دے کر اس کی حُرمت کو دوام بخشا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، ماں، باپ کی رضا میں رب تعالیٰ کی رضا ہے، اور ماں کی دعا میں انسان کی تقدیر کا بدل جانا ممکن ہے۔

ماں… ایک ایسا چراغ ہے جو خود جل کر اپنے بچوں کے راستے روشن کرتی ہے۔ ماں قربانی کی ایسی داستان ہے جو ہر آن اپنی خواہشات کو مٹا کر اولاد کی خوشیوں کی خاطر نئی صبحوں کے خواب بُنتی ہے۔ ماں عشق کی وہ کہانی ہے جس میں صرف دینے کا عمل ہے، لینے کا کوئی تصور نہیں۔
جب ہم کسی کے احسانات کا گہرا احساس کرتے ہیں تو بے اختیار کہتے ہیں: ’’آپ تو ماں جیسی ہیں۔‘‘ یہ جملہ خود ماں کے مقام کا اعتراف ہے کہ محبت، شفقت اور ایثار میں ماں جیسی کوئی دوسری مثال نہیں۔

ماں… محبت کا سمندر ہے، رحمت کی بارش کی طرح ہے، دعاؤں کا خزانہ ہے۔ بچے کے لیے ماں کی گود دنیا کی سب سے پُرامن پناہ گاہ ہے۔ اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اولاد کی کامیابی کا مژدہ ہے۔ اس کی پیشانی وہ نعمت ہے، جس کو خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز کر کے وہ اپنی اولاد کی عظمت و بلندی کی دعا مانگتی ہے۔ یقیناً ماں بے مثال ہے، اس کا خلوص بے مثال، اس کی ممتا بے مثال، اور اس کا قرب بے مثال ہے۔ ماں کی دعا وہ طاقت ہے جو زندگی بھر ہمارا مقدر سنوارتی ہے، اور ماں کی محبت وہ سائبان ہے جو دنیا کے تھپیڑوں سے ہمیں بچائے رکھتا ہے۔

کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے سروں پر ماں کی شفقت بھری چھاؤں سایہ فگن ہے، اور کتنے روشن و آباد ہیں وہ گھر جہاں ماں کا وجود زندگی کی رونقوں کو بکھیرتا ہے۔ یہ نعمتِ بے بدل ہر دل کی تسکین اور ہر روح کی خوشبو ہے۔ مگر جس گھر سے یہ انمول چراغ گل ہو جائے، وہاں کی فضا سنسان ہو جاتی ہے، دیواریں خاموشی کے نوحے پڑھتی ہیں، اور زندگی کا ذائقہ مانند خزاں مرجھا جاتا ہے۔ سورج کی کرنیں بھی ایسی فضا میں اجالا نہیں بکھیر سکتیں اور چودھویں کا چاند بھی ان ویرانیوں کو روشن کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ خوابوں کی وادیوں میں مسکراہٹیں دم توڑ دیتی ہیں اور دل کا دامن ہمیشہ اداسی سے بھیگ جاتا ہے۔

میں خود اس کٹھن مرحلے سے گزر چکا ہوں۔ ماں کی جدائی نے ہمارے آشیانے کو ایسی وحشت اور سنّاٹے میں بدل دیا تھا کہ ہر سانس بوجھ لگتی تھی۔ وہی گھر، جہاں کبھی ہنسی کی جھنکار گونجتی تھی، اب خاموشی کے مقبرے میں ڈھل گیا تھا۔ میری ماں نے اپنی زندگی ہماری تعلیم و تربیت پر وقف کر دی تھی، اور ہم بہن بھائیوں کو کم سنی میں قرآنِ کریم کی دولت سے مالا مال کر دیا تھا۔ اُن کے جانے کے بعد ہم نے اپنے دلوں کی ویرانی کو قرآن کی تلاوت سے بھرنے کی کوشش کی الحمد للّٰہ، مگر ماں کی کمی آج بھی رگ و جاں میں سناٹے کی طرح بولتی ہے۔ کبھی کبھار دل کی زمین پر ایسے آنسو برس پڑتے ہیں جو کسی موسم کے پابند نہیں ہوتے۔ اسی رشتے کی رفعت اور تقدیس کو علامہ اقبالؒ نے یوں بیان کیا کہ ایک مومن ماں، مومن نسل کی معمار ہوتی ہے۔ واقعی ماں کی گود پہلی درس گاہ ہے، جہاں انسان اطاعت، محبت، صبر اور وفا کے بنیادی اسباق سیکھتا ہے، اور یہی اسباق اس کے کردار کی عمارت کو تعمیر کرتے ہیں۔ ماں کی دعائیں، ماں کی تربیت اور ماں کی قربانیاں ایک ایسی اساس ہیں جن پر ایک صالح معاشرہ استوار ہوتا ہے۔

اگر آج ہماری نوجوان نسل اس عظمت کو پہچان لے، تو ہمارے معاشرے میں محبت، شفقت اور عزت کے وہ گلستان آباد ہو جائیں جن کی مہک نسلوں تک محسوس کی جا سکے۔ ماں خاندان کا ستون ہے، چراغ ہے، راستہ دکھانے والی وہ روشنی ہے جو اندھیروں میں بھٹکنے سے بچاتی ہے۔ ماں پھولوں کی وہ خوشبو ہے جو دلوں کو معطر کرتی ہے اور گھروں کو جنت کا نمونہ بنا دیتی ہے۔

آئیے! آج ہم یہ عہد کریں کہ جب تک یہ عظیم ہستی ہماری زندگیوں میں موجود ہے، ہم اپنی پوری محبت، خلوص اور ادب کے ساتھ ان کی خدمت کریں گے۔ ان کے چہرے پر خوشی کی مسکراہٹ بکھیرنے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی سمجھیں گے۔ اور اگر یہ ہستی آج بھی آپ کے آنگن میں محبت کا سایہ کیے ہوئے ہے، تو اِس ”یومِ مادر“ پر اپنی زبان، اپنے عمل اور اپنی محبت سے انہیں یہ یقین دلائیں کہ آپ کی دنیا کی سب سے قیمتی متاع آپ کی ماں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے