بیروزگار مودی جی کے لیے جاب آفر

نریندر مودی جی پہلے چائے بیچتے تھے۔ پھر کچھ عرصہ دنیا کو اکانومی بیچنے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر نہ چائے میں دم رہا، نہ معیشت میں مزا آیا۔ یوں لگتا ہے کہ دونوں ہی معاملات میں خریدار کم اور نعرہ باز زیادہ تھے۔ چائے بھی ٹھنڈی پڑ گئی، اور معیشت کی دیگ بھی کچی رہ گئی۔ اب قوم سوال کرتی ہے کہ یہ غریب کا بچہ آخر کرے گا کیا؟ نہ چائے کا کپ بکا، نہ ملک کا نقشہ سنوارا، اور اب سیاست کی سرکس بھی سنسان پڑی ہے۔ ہاتھی نکل چکا ہے، صرف کاغذی شیر اور مونچھوں والے مداری رہ گئے ہیں جو اب خود بھی سمجھ نہیں پا رہے کہ تماشہ ختم ہوا یا تماشائی چلے گئے۔

ان حالات میں، ایک انسان دوست اور ہمسایہ پرور پاکستانی ہونے کے ناتے میرا دل بے اختیار نرم ہو گیا۔ ہم پاکستانی دل کے معاملے میں کمزور ہوتے ہیں۔ ایک سابق چائے فروش، حال کا بے روزگار ہو تو دل پسیج ہی جاتا ہے۔ میری طبیعت ویسے بھی ذرا ترسیلی واقع ہوئی ہے، اور مجھے بیکار مگر مستقل مزاج لوگوں سے ہمیشہ ہمدردی رہی ہے — خاص طور پر وہ جو مسلسل ناکامیوں کے جھنڈے گاڑ چکے ہوں۔

ایسے میں قدرت نے ایک انوکھا اتفاق برپا کیا۔ میری بلی جس کا نام "رانی” ہے نے حال ہی میں تین عدد نہایت معصوم، نرم و نازک، اور گول مٹول بچے دیے ہیں۔ وہ عمر کے اس نازک مرحلے میں ہیں جہاں انہیں دن رات نگہداشت، توجہ اور تھپک تھپک کر سلانے والا کوئی کیئر ٹیکر درکار ہے۔ سوچا، کیوں نہ یہ ذمہ داری نریندر مودی جی کو سونپ دی جائے؟ ان کی سابقہ حماقتیں اور ناکامیاں دیکھ کر امید تو نہیں، لیکن شاید وہ یہ کر لیں۔

سوچیے، ایک ایسا شخص جو چائے کے دھندے سے لے کر معیشت کے میلے تک سب کچھ آزما چکا ہو، اور اب خود بھی حیران ہو کہ اب کل روٹی کہاں سے کھائے گا، اُس کے لیے بلیوں کی پرورش ایک پرسکون، باعزت اور محفوظ پیشہ بن سکتا ہے۔ ویسے بھی خدمتِ خلق میں اُن کی دلچسپی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اور ان کی شخصیت میں ایسی عاجزی ہے کہ بندہ چائے بھی بنا سکتا ہے، تقریر بھی کر سکتا ہے، اور اگر ضرورت پڑے تو گود میں بلی بھی اٹھا سکتا ہے۔

اگر وہ یہ منصب سنبھال لیں تو رانی کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہوگا۔ بس ذرا نظر رکھنی پڑے گی کہ کہیں وہ ان معصوموں کو بھی اپنے مخصوص انداز میں "سب کا ساتھ، سب کا وکاس” کا نعرہ دے کر سیاسی رنگ میں رنگنے کی کوشش نہ کریں۔ مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ رانی خود خاصی باغی فطرت کی بلی ہے اور محلے کے کتے کو بھی دو بار بھگا چکی ہے۔

اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جائے تو میرے ذہن میں ایک اگلا منصوبہ بھی ہے: میں نے ایک گائے بھی رکھی ہوئی ہے اور محلے والے اس کے پیشاب کی بو کی شکایت کرتے ہیں۔
اگر مودی جی کو گائے کا کیئر ٹیکر بنا دیا جائے، تو وہ ایک ماں کی طرح اس کا خیال رکھیں گے اور پیشاب کی ایک بوند بھی زمین پر گرنے نہیں دیں گے۔ میرا مسئلہ بھی ختم، پڑوسیوں کی شکایت بھی دور۔۔۔
لیکن اگر وہ حسبِ عادت، یہ پیشکش بھی ٹھکرا دیں، تو میں اُن کو یہی مشورہ دوں گا:

"بھائی، تم سے نہ ہو پائے گا!”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے