پاک بھارت جنگ: فرقہ غامدیہ کا امکانی موقف

پاک بھارت جنگ: فرقہ غامدیہ کا امکانی موقف ( پہلا حصہ)

(پاک بھارت جنگ پر اگر فرقہ غامدیہ کی طرف سے تجزیہ آئے تو وہ کیسا ہو سکتا ہے؟ ایک امکانی چاند ماری پیش خدمت ہے۔)

بے شک جہاد کا اعلان کوئی گروہ نہیں کر سکتا بلکہ یہ حق صرف ریاست کو ہے تا ہم یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ریاست کو جنگ کرنی چاہیے ، جہاد نہیں ۔

ایک اہم نکتہ جو مسلمانوں کی فقہی تاریخ میں کوئی نہیں سمجھ پایا اور جسے صرف ہم نے بالصراحت بیان کر دیا وہ یہ ہے کہ جب مروجہ اصطلاحات کفایت کر رہی ہوں تو غیر ضروری طور پر اسلامی اصطلاحات کے استعمال سے گریز ہی حکمت ہے۔ اس سے تصادم تہذیب کا خطرہ پیدا ہوتا ہے.

یہ بات بھی پوری قطعیت کے ساتھ ہم کو سمجھ لینی چاہیے کہ ریاست جہاد کا اعلان کر سکتی ہے لیکن ریاست کی ہر جنگ جہاد نہیں ہوتی۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے ایک شاگرد عزیز نے اپنی فلم میں حکمت کی یہ بات ڈالی تھی کہ اسلام میں داڑھی ضرور ہے لیکن ڈاڑھی میں اسلام نہیں ۔ ایسی فلموں کو دیکھ لینا چاہیے اس سے شعور انسانی کو ترقی ملتی ہے۔ ویسے تو ہمارا فرقہ خود ایک بہت بڑی فلم ہے۔ تاہم فنون لطیفہ اور ذوق لطیف کا تقاضا ہے کہ ہمیشہ ایک فلم ہی نہیں دیکھنی چاہیے۔ تنوع ہی زندگی ہے۔

ریاست ایک جدید تصور ہے قدیم ذہن اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں. جان لیجیے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا. اسےمذہبی اصطلاحات سے گریز کرنا چاہیے.

اس باب میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن یہ حق مروجہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں حاصل کرنا چاہیے ۔ اس صورت میں اسے جنگ کہا جائے گا ، جہاد نہیں۔

اس بات کو یوں سمجھیے کہ بھارت میں اسد الدین اویسی جیسے مسلمان تو بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جہاد کی صورت میں یہ کیسے ممکن تھا کہ کہ وہ بھارت کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ اس لیے یہ جنگ ہے جہاد نہیں۔

ہم اس سارے بیانیہ سے اعلان برات کرتے ہیں جس نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ میں متعدد دفعہ یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں کہ یہ دور مسلمانون کے عروج کا دور نہیں ہے۔ ہمیں اس دور کے تقاضوں کے تحت زندگی گزارنے کے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ہماری ففقہ بھی دور عروج کی فقہ ہے۔ اب زوال کا دور ہے۔ اب زوال کی فقہ کی تشکیل کی ضرورت ہے جو مسلمانون کو بتائے کہ اس دور کے تقاضے کیا ہیں اور کیسے ہمیں صرف اور امن کے وقفے کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ یہ کام روایتی اہل علم نہیں. یہ بھاری پتھر داماد محض ہی اٹھا سکتے ہیں.

اس باب میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہمیں جدید دنیا کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بنیان مرصوص جیسا نام رکھنا ایک تہذیبی کشمکش کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس بات کو پوری قطعیت کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے کہ تہذیبی تصادم کی اب کوئئی گنجائش نہیں رہے کیونکہ اب ٹکساس بھی ہمارا ہے بلکہ ٹکساس ہی ہمارا ہے۔ دارالکفر اور دارالاسلام جیسی بحثیں متروکات زمانہ ہیں۔

پاک بھارت جنگ :فرقہ غامدیہ کا امکانی موقف (حصہ دوم)

دیکھیے اس بات کو اچھی طرح جان لیجیے کہ جہاد کا اعلان صرف ریاست کر سکتی ہے اور ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو پھر وہ جہاد کیسے کر سکتی ہے.

اس باب میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ریاست کو بھی ہماری طرح کنفیوز ہونا چاہیے.

ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ بھی نہیں ہونی چاہیے. حالات مشکل ہو جائیں تو ریاستوں کو صبر کرنا چاہیے. صبر کے بڑے درجات ہیں. آپ کیا سمجھتے ہیں دین پر عمل اتنا ہی آسان ہے. اس بات کو آخری درجے میں جان لیجیے کہ دین تو نام ہی صبر کا ہے.

افسوس پاکستان کا سماج صبر کے معیار پر پورا نہ اتر سکا. اسی لیے تو ہم کو ہمارا ٹکساس پسند ہے.

ہم اس جنگ سے لاتعلق تھے. اب تو پاکستان کا پلڑا بھاری ہے ورنہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو پھر جو دامادی رافیل آپ پر چھوڑے جاتے وہ آپ کو بالصراحت یہ بات سمجھاتے کہ تصادم نے کیسے اب تک مسلمانوں کا نقصان کیا ہے.

جے ایف 17 تھنڈر نے اپنے تفردات سے سارا معاملہ خراب کر دیا ورنہ ہمارے ڈسکوکورس کے انتہائی مقامی مفتی بھی اڑان بھرنے کو تیار تھے. وہ اپنی نوک ادھر ادھر مار کے صدیوں کے حساب پورے کر دیتے لیکن ہمارے سارے رافیل فی الوقت دھواں مار چکے.

ہنارے رافیلوں کی دموں سے نکلتے سیاہ مائل دھویں کے علمی مقام سے قطع نظر، پاکستان کے متشدد سماج کو سمجھنا چاہیے کہ مناسب راستہ یہی ہے کہ بھارت کے خلاف جمہوری جدوجہد کرنی چاہیے.

اس میں وقت ضرور لگتا لیکن کرنے کا کام یہی تھا.
( جاری ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے