حال ہی میں اپنی ایک مختصر پوسٹ میں پاکستان کے ملحدوں کی ذہنی اور اخلاقی حالت پر مختصر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے کہا:
"الحاد کے ایک سرے پر جہالت جبکہ دوسرے پر حماقت ہوتی ہے”۔
صارفین نے اس میں کافی دلچسپی لیتے ہوئے مختلف سوالات اور تبصروں کا سلسلہ جاری رکھا۔
کئی ایک نے سوال پوچھا کہ اگر دونوں سروں پر یہ چیزیں ہیں تو درمیان میں کیا ہے؟
جس کے جواب میں، میں نے عرض کیا کہ "درمیان میں ایک مخصوص قسم کی سرمستی ہوتی ہے جس کی سمجھ خود ملحدوں کو بھی نہیں آرہی البتہ اس کی جڑوں میں ایک اذیت ناک بے چینی ضرور پائی جاتی ہے جو کہ ملحدوں کو پل بھر کے لیے بھی سکون سے نہیں رہنے دے رہی کیونکہ انہیں خدا کے بغیر کائنات اور زندگی کی کوئی اطمینان بخش توجیہہ ہاتھ نہیں آرہی”۔
میری پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے Xhee Xhan نامی ایک صارف نے ردعمل میں کہا
"مذہب کے ایک سرے پر قتل و غارت اور دوسرے سرے پر لوٹ مار ہوتی ہے”۔
اس پر ایک اور صارف Saad Saadi نے جواب دیا کہ
"الحاد وہ ناڑا جسے کس کے باندھو تو بدن زخمی کرتا ہے اگر سست باندھ لو تو گرنے کا بار بار خطرہ ہوتا ہے”۔
یوں ایک طویل بحث شروع ہوگئی تاہم میں نے صرف ایک بار وضاحت کرتے ہوئے مکمل خاموشی اختیار کی لیکن اس سے پہلے آئیے الحاد کا ایک مختصر سا تعارف کرتے ہیں:
"الحاد عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی انحراف یا راستے سے ہٹ جانے کا ہے۔ الحاد کو انگریزی زبان میں atheism کہا جاتا ہے جس کا اردو زبان میں مطلب لامذبیت یا لادینیت لیا جاتا ہے۔ الحاد اسلامی مباحث میں استعمال کی جانے والی ایک ایسی اصطلاح ہے جو کہ منکرین خدا کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
الحاد کے پیروکاروں کو ملحد، دہریے، مادہ پرست یا منکرین خدا بھی کہا جاتا ہے۔ مختلف تحقیقی اندازوں کے مطابق ملحدوں کی تعداد اس وقت دنیا بھر میں کوئی ایک ارب کے آس پاس ہے جبکہ چین میں ان کی سب سے بڑی تعداد یعنی چالیس کروڑ کی لگ بھگ موجود ہے۔
ملحدین کا خیال ہے کہ یہ کائنات کسی خدا نے پیدا نہیں کی ہے بلکہ یہ خود بخود وجود میں آئی ہے اور یہ کہ مختلف اشکال میں ہمیشہ موجود رہے گی”۔
اب آئیے میرے جواب کی طرف میں نے کہا:
"ہر ایک کا اپنا خیال ہوتا ہے اور ہر فرد مختلف احوال اور تجربات سے گزر کر مخصوص قسم کے خیالات آپنا لیتے ہیں لیکن میں نے مذہب کے بارے میں جنتا پڑھا، سمجھا یا سوچا ہے وہ یہ ہے کہ مذہب اپنے آغاز میں تلاش (حق یا حقیقت کی) ہے۔ درمیان میں (قبولیت یا اختیار) ہے اور آخر میں ایمان کے نتیجے میں میسر آنے والا اطمینان ہے۔ جنگوں کے مواقع مذہب پیدا نہیں کر رہا بلکہ طاقت اور دولت کے حامل عناصر اپنے ظالمانہ عزائم کو بھر لانے کے لیے اختیار کیے جانے والے اقدامات کی بدولت پیدا کر رہے ہیں۔ مذہب نے ہزارہا اقسام پر پھیلی جنگوں کو ختم کر کے اس ذریعے کو انصاف کے قیام اور قومی دفاع جیسے مقدس مقاصد تک محدود کر دیا ہے۔ مذہب اور مذہب کے حاملین حتی الوسع جنگوں کے مواقع ختم کر رہے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ امن بحال رہے تاکہ لوگوں کو آزادانہ طور پر اپنی منشاء اور مدعا ظاہر کرنے کا موقع میسر ہو۔ مذہب سب سے زیادہ زور صبر پر، اخلاقی حدود کی پابندی پر اور اپنے جائز حقوق پر رضامندی کے اوپر دیتا ہے اور یہ سارا اہتمام جھگڑوں اور جنگوں کا راستہ روکنے کے لیے ہی ہے”۔
میں نے ملک بھر کے بہت سارے ملحدوں کے خیالات اور جذبات ملاحظہ کیے ہیں۔ ان کے پاس الحاد کے لیے کوئی ٹھوس علمی اور نظریاتی بنیاد نہیں ہوتی۔ یہ مذہب اور ریاست سے بدظن ایک ایسا بدقماش طبقہ ہے جس کے پاس علم ہوتا ہے نہ اخلاق، سنجیدگی ہوتی ہے نہ ہی شائستگی، وقار ہوتا ہے نہ ہی کوئی ٹھوس نقطہ نظر۔ مذہب اور ریاست کے خلاف فضول، توہین آمیز اور اخلاق باختہ قسم کی باتوں اور مذاق اڑانے کے علاؤہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس طبقے کا نمائندہ ایک آدمی اویس اقبال بھی ہے جس کے پاس اسلام اور اسلامی شخصیات یا تعلیمات کا مذاق اڑانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ وہ مذہب کے بارے میں جہالت اور ریاست کے بارے میں نفرت سے بھرا ایک بدتہذب قسم کا بندہ ہے جو ملک سے باہر بیٹھ کر ملک کے خلاف نفرت انگیز اور دین اسلام کے خلاف خلاف حد درجہ توہین آمیز قسم کا لب و لہجہ دن رات مسلسل استعمال کر رہا ہے۔ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جس میں وہ اسلام اور پاکستان کی توہین اور تذلیل کر سکتا ہو۔ میں اس کو ملحد نہیں بلکہ حد درجہ احمق سمجھتا ہوں جس کے پاس دین اور ملک کے خلاف بکواس کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور یہ حال کم و بیش دوسرے پاکستانی ملحدوں کا بھی ہے۔ بے چاروں کے پاس مذاق اڑانے، گالیاں دینے اور شور کرنے کے علاؤہ کچھ بھی نہیں۔