ایک ہی زمین ، ایک ہی قافیہ ، بارہ شعراء ، بارہ غزلیں

کچھ دن پہلے جناب وارث صاحب کے بلاگ پر ’’دو شاعر اور دو غزلیں ‘‘ کے نام سے عنوان دیکھا، جس کے ذیل میں لکھا تھا کہ؛ ’’فیض احمد فیض اور احمد فراز اردو شاعری کے دو بہت بڑے نام ہیں، ان دونوں شاعروں کی دو دلچسپ اور مشہور و معروف غزلیں جو ایک ہی زمین میں ہیں‘‘۔اور ساتھ ہی بحر کا نام اور غزلوں کا وزن بھی دیا ہوا تھا، جو ان کے شکریہ کے ساتھ یہاں درج ہے؛
بحر ’’ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
وزن: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن‘‘۔
فیض اور فراز کی یہ مشہور غزلیں پڑھ کر ہمیں یاد آیا کہ ہم نے اسی طرز کے کئی اور اشعار بھی سن رکھے ہیں جو کہ ان دو غزلوں میں موجود نہیں ہیں،اور اسی طرح ایک شاعر کی زبانی بھی اسی قسم کا کلام سنا تھا۔ چنانچہ یہ سوچ کر کھوج لگانی شروع کی تو حیرت ہوئی کہ ایک دو نہیں کئی شعراء کا کلام اسی قافیہ و ردیف اور اسی بحر میں موجود ہے جن میں سے فیض اور فراز کے علاوہ بھی کچھ مشہور شعراء شامل ہیں،اور بارہ تک ہمیں رسائی حاصل ہوگئی۔
فیض کی غزل کے تو کیا ہی کہنے،ان کا یہ مصرع’’ مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے.منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے‘‘ زباں زدِ خاص و عام ہونے کے ساتھ ساتھ صحافتی دنیا میں بھی عالمگیر شہرت کا حامل ہے۔
ذیل میں ادب نواز اور شاعری اک شغف رکھنے والے دوستوں کی ضیافتِ طبع کیلئے تمام غزلیں پیشِ خدمت ہیں۔

(غزل نمبر:1)
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
فیض احمد فیض:(1911 ۔ 1984)

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچّھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ وَرَو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گَرَو ساز صدا کیوں نہیں دیتے
پیمانِ جنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو، گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے
بربادیٔ دل جبر نہیں فیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بُھلا کیوں نہیں دیتے
فیض احمد فیض

(غزل نمبر:2)
اک جام محبت کا پلا کیوں نہیں دیتے
******************
مہند رناتھ کول صدف لکھنوی
(۱۹۱۳۔۱۹۸۳)
کیوں بات بڑھاتے ہو بنا کیوں نہیں دیتے
اک جام محبت کا پلا کیوں نہیں دیتے
(انہوں نے بھی مکمل غزل کہی تھی مگر فی الحال ان کی غزل کے صرف ایک شعر تک رسائی ہو سکی۔)

 

 

(غزل نمبر:3)
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
احمد فراز:(1931-2008)
خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے

اک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے

کیا بیت گئی اب کے فراز اہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے
احمد فراز

(غزل نمبر:4)
پتھر تو نہیں لوگ، صدا کیوں نہیں دیتے ؟
حمایت علی شاعر:1926ء پیدائش
آتش کدۂ دل کو ہوا کیوں نہیں   دیتے ؟
پتھر تو نہیں لوگ، صدا کیوں نہیں دیتے ؟

سایہ ہے کہ خورشید کے دل کی ہے سیاہی
محرم ہو تو یہ راز بتا کیوں نہیں دیتے ؟

(غزل نمبر:5)
گر حرفِ غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
(مرتضیٰ برلاس:1934)
*************************
اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے
گر حرفِ غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
ایسے ہی اگر مونس و غم خوار ہو میرے
یارو مجھے مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اب شدتِ غم سے مرا دم گھٹنے لگا ہے
تم ریشمی زلفوں کی ہوا کیوں نہیں دیتے
فردا کے دھندلکوں میں مجھے ڈھونڈنے والو
ماضی کے دریچوں سے صدا کیوں نہیں دیتے
موتی ہوں تو پھر سوزنِ مژگاں سے پرو لو
آنسو ہوں تو دامن پہ گرا کیوں نہیں دیتے
سایہ ہوں تو پھر ساتھہ نہ رکھنے کا سبب کیا
پتھر ہوں تو رستہ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے

(غزل نمبر:6)
رخسار پہ سنت کو سجا کیوں نہیں لیتے
شاہین اقبال اثر
************************
ایماں کی حلاوت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
سڑکوں پہ نگاہوں کو جھکا کیوں نہیں لیتے

کوّے تو نہیں ہو کہ ہو مرغوب غلاظت
تم ہنس ہو موتی کی غذا کیوں نہیں لیتے

کرتے ہو معاصی کے مرض کو نظر انداز
روحانی طبیبوں سے دوا کیوں نہیں لیتے

اب آتشِ الفت کی درآمد بھی کہاں تک
یہ آگ ہی سینے میں لگا کیوں نہیں لیتے

ہر بے کس و مجبور کی کرتے ہو خوشامد
اک صاحب قدرت کو منا کیوں نہیں لیتے

سرکارﷺ کی صورت سے اگر پیار ہے تم کو
رخسار پہ سنت کو سجا کیوں نہیں لیتے

کیوں مسٹر و ملّا کے ہو مابین مرے دوست
داڑھی کو تم اک مشت بڑھا کیوں نہیں لیتے

کہتے ہو مرض کبر کا جب تم میں نہیں پھر
شلوار کو ٹخنے سے اٹھا کیوں نہیں لیتے

کیا رنگ و چمک دیکھتے پھرتے ہو بتوں کی
تم خالقِ سورج سے ضیا کیوں نہیں لیتے

ہیں تیز بہت ساقی دوراں کی شرابیں
تم اپنی شراب اس میں ملا کیوں نہیں لیتے

ہیں داغ جو عصیاں کے اثرؔ دامنِ دل پر
اشکوں کے سمندر میں نہا کیوں نہیں لیتے

(غزل نمبر:7)
تم ظلم کی دیوار کو ڈھا کیوں نہیں دیتے
احمد علی برقی اعظمی؛1953
*****************
پردہ رُخِ روشن سے ہٹا کیوں نہیں دیتے
ہوش اہل نظارا کے اُڑاکیوں نہیں دیتے

وارفتگیِ شوق بڑھا کر مری آخر
منزل کا مری مجھ کو پتا کیوں نہیں دیتے

حایل ہے اگر بیچ میں یہ امن و سکوں کے
تم ظلم کی دیوار کو ڈھا کیوں نہیں دیتے

کیوں بیٹھ گئے تھک کے وہ ہے سامنے منزل
دو چار قدم اور بڑھا کیوں نہیں دیتے

جب پیش کیا اپنا تعارف تو وہ بولا
تم عظمتِ رفتہ کو بھُلا کیوں نہیں دیتے

حق جو ہے مرا اُن سے وہی مانگ رہا ہوں
وہ میری وفاؤں کا صلا کیوں نہیں دیتے

اقبالؔ کی عظمت سے جو بے بہرہ ہیں اب تک
پڑھنے کو اُنھیں بانگِ درا کیوں نہیں دیتے

میں اُن کی نگاہوں میں کھٹکتا ہوں اگر وہ
بے جُرم و خطا مجھ کو سزا کیوں نہیں دیتے

حقدار کا حق جو بھی غصب کرتے ہیں برقیؔ
اوقات اُنھیں اُن کی بتا کیوں نہیں دیتے

(غزل نمبر:8)
اس شخص کو جینے کی دعا کیوں نہیں دیتے
راشدؔ فضلی
********************
مجرم ہے تمہارا تو سزا کیوں نہیں دیتے
اس شخص کو جینے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اس پیڑ کے سائے میں بھی کیوں اتنی گھٹن ہے
ہیں سبز یہ پتے تو ہوا کیوں نہیں دیتے
جس خون میں آ جائے سفیدی کی ملاوٹ
اس خون کو آنکھوں سے بہا کیوں نہیں دیتے
آئینے ستاتے ہیں تو چہرے کو نہ دیکھو
آنکھوں میں چمک ہے تو بجھا کیوں نہیں دیتے
اس عرصہء خاموش میں ہم تنہا کھڑے ہیں
ہو درد ہمارا تو صدا کیوں نہیں دیتے
کچھ لوگ جو پیچھے ہیں وہ پنجوں پہ کھڑے ہیں
قد اپنا یہ تھوڑا سا گھٹا کیوں نہیں دیتے
ہے آگ کا یہ کھیل تو پھر سوچنا کیسا
خود اپنا بدن آپ جلا کیوں نہیں دیتے
وہ بات جو پڑھتے رہے آنکھوں میں ہماری
وہ سارے زمانے کو بتا کیوں نہیں دیتے

(غزل نمبر:9)
دیتے ہو جو تم درد ، دوا کیوں نہیں دیتے
از: محمد نعمانؔ اکرمی
***********************
محرومئی احساس ‘ مٹا کیوں نہیں دیتے
اور جرأت اظہار‘ دکھا کیوں نہیں دیتے

اب تاب نہیں درد و غم جبر کی اے دل
دیتے ہو جو تم درد ، دوا کیوں نہیں دیتے

فرعونیت سیسی کو کرنے کے لیے غرق
موسی کسی مرسی کو بنا کیوں نہیں دیتے

کہتی ہے یہ سفاکیت منصف دوراں
مانگے جو جزا اس کو سزا کیوں نہیں دیتے

ہے رزم گہہ مصر میں حق برسرپیکار
باطل کو تہِ تیغ دبا کیوں نہیں دیتے

خوں ریز عزائم ہیں ، مقاصد بھی ہیں مہلک
یارب میرے دشمن کو فنا کیوں نہیں دیتے

محتاج ہے اسلام کا ہر ذرۂ عالم
حقانیت دیں کو بقا کیوں نہیں دیتے

خلاق جہاں آفت جاں ٹال ہی دیں گے
عرض دل و جاں رب کو سنا کیوں نہیں دیتے

مجبورئ حالات گراں بار ہے بے شک
کچھ حوصلہ و عزم بڑھا کیوں نہیں دیتے

بدلیں گے نصیب اپنے عمل اور دعا سے
سب مل کے اٹھا دست دعا کیوں نہیں دیتے

نعمان ؔ ہر ایک جدت امروز کی خاطر
ہر تلخئ فردا کو بھلا کیوں نہیں دیتے

(غزل نمبر:10)
رنجش کو دل اپنے سے مٹا کیوں نہیں دیتے
سعیدہ مظفر-
**************
گر ہم نے کیا جرم سزا کیوں نہیں دیتے
کیوں ہم پہ مہرباں ہو بتا کیوں نہیں دیتے

ہم کہ ٹھہرے اجنبی دیار ِغیر میں
پہچان کے بھی ہم کو سزا کیوں نہیں دیتے

آ دیکھ تیرے بعد جنوں میں دل ِ مضطر
کس حال میں ہے اس کو دوا کیوں نہیں دیتے

گزری ہے ہم پہ جو بھی بس گزر گئ
رنجش کو دل اپنے سے مٹا کیوں نہیں دیتے

ہم کہ مریض ِعشق اب ترے روبرو
محرم ہوں کہ مجرم شفا کیوں نہیں دیتے

حد سے بڑھا جنوں آیا جو سامنے
اے دشمنِِ ِ جاں! حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
سعیدہ مظفر-

(غزل نمر:11)
یادوں کی کوئی بزم سجا کیوں نہیں دیتے
شاہ جی علی
****************
بجھتے ہوے شعلوں کو ہوا کیوں نہیں دیتے
پھر آ کے ہمیں یاد ، رلا کیوں نہیں دیتے

یا روٹھ چلو مجھ سے تو یا ٹوٹ کے برسو
ہر روز کا جھگڑا ہے چکا کیوں نہیں دیتے

شاید کہ ملائک تیری نصرت کو اتر آئیں
فریاد سے پھر عرش ہلا کیوں نہیں دیتے

اس کو نہیں کچھ غرض تیری بھوک سے ننگ سے
ہمسائے کی کوٹھی کو بھلا کیوں نہیں دیتے

ہر روز کا ، فاقہ ہے ، مشقت سے کٹے گا
روتے ہوے بچوں کو سلا کیوں نہیں دیتے

وحشت کے گلی کوچوں میں تار اس کی ردا ہے
سوئے ہوے انساں کو جگا کیوں نہیں دیتے

بیمار ہوں اور مجھ پہ اذیت کی گھڑی ہے
اچھے میرے عیسٰی ہو دوا کیوں نہیں دیتے

اس دل کے نہاں خانوں میں ٹھہری ہے اداسی
یادوں کی کوئی بزم سجا کیوں نہیں دیتے

ہر روز ، نیا دور ، نیا زخم ہی دے گا
روٹھے ہوے لمحوں کو صدا کیوں نہیں دیتے

مظلوم ہمیں جانو تو سینے سے لگا لو
مجرم جو سمجھتے ہو ، سزا کیوں نہیں دیتے

ہر روز نیا ظلم ہے ، سہ پائو گے کب تک
خاموشی سے اک حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

یاروں کا تقاضہ ہے علی ضد نہیں کرتے
اک غزل سنانی ہے ، سنا کیوں نہیں دیتے
شاہ جی علی

(غزل نمبر:12)
منصف ہو تو مجرم کو سزا کیوں نہیں دیتے
شاعر:نامعلوم

دشمن ہوں تو نظروں سے گرا کیوں نہیں دیتے
اپنا ہوں ، تو پھر دل میں جگہ کیوں نہیں دیتے

ہے بات محبت کی ، تو پھر سب سے محبت
ہم دل سے عداوت کو مٹا کیوں نہیں دیتے

ہرموڑ پہ لٹ جا تے ہیں ، کیوں قا فلے والے
راہبر ہی تو راہزن ہیں بتا کیوں نہیں دیتے

جب ظلم بڑھے حد سے تو پھر چپ ہے بڑا ظلم
تم لوگ کوئی حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

مظلوم ہیں ، لاچار ہیں، داہر کے ستائے
یہ پھر کسی بن قاسم کو صدا کیوں نہیں دیتے

معصوم ہے پھانسی پہ ، تو مظلوم کو کوڑے
منصف ہو تو مجرم کو سزا کیوں نہیں دیتے

مہنگا ئی ہے، نا یا بی ہے ہر روز کا مرنا
اک بار ہی پھانسی پہ چڑھا کیوں نہیں دیتے

اغیا ر کے وعدے ہوں ، وعیدیں ہوں کہ معاہدے
سب جھوٹ ہیں، دامن کو چھڑا کیوں نہیں دیتے

اب خواب نہیں ، اٹھو کوئی تعبیر تراشیں
"سوئے ہوئے انساں کو جگا کیوں نہیں دیتے‘‘

ذیل میں آنے والی غزل نمبر13 اور 14 دونوں بھی اسی مذکورہ بالا زمیں اور قافیہ میں کہی گئی غزلیں ہیں ، تاہم فرق صرف اتنا ہے کہ پہلی میں ردیف کے اندر ایک حرف کی تبدیلی کے ساتھ ’’دیتے‘‘ کو دیتا‘‘ باندھا گیا ہے اور دوسری میں’’دیتے‘‘ کی جگہ بطورِ قافیہ لفظِ ’’ کرتے ‘‘ لایا گیا ہے۔اس معمولی فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں بھی اسی فہرست میں شامل رکھا گیا ہے۔اس لحاظ سے یہ کل چودہ غزلیں ہوئیں۔

(غزل نمبر:13)
اس راز سے پردہ وہ ہٹا کیوں نہیں دیتا
ابنِ رضا
****************
کیا کیا ہیں گلے اُس کو، بتا کیوں نہیں دیتا
تعزیرِ خطا مجھ کو سنا کیوں نہیں دیتا

ہیں ناوکِ دل دوز مرے یار کے تیور
اِک بار وہ سب تیر چلا کیوں نہیں دیتا

یک طرفہ محبت کے تذبذب سے تو نکلوں
اس راز سے پردہ وہ ہٹا کیوں نہیں دیتا

لکھتا بھی ہے مجھ کو سرِقرطاسِ محبت
مذموم جو لگتا ہوں مٹا کیوں نہیں دیتا

اتنا ہی فسردہ ہے اگر حال پہ میرے
جلوہ کبھی اپنا وہ دکھا کیوں نہیں دیتا

سرگرمِ سفر ہوں میں ترے دشت میں کب سے
مجھ کو مری منزل کا پتا کیوں نہیں دیتا

خوابیدہ نصیبی بھی تو تیری ہی عطا ہے
سوئی مری تقدیر جگا کیوں نہیں دیتا

جو تابِ تماشا ہی نہیں اس میں رضا تو
وہ آتشِ فرقت کو بجھا کیوں نہیں دیتا
ابنِ رضا

(غزل نمبر:14)
تم درد تو دیتے ہو دوا کیوں نھیں کرتے
پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی
********************
حق میری محبت کا ادا کیوں نہیں کرتے
تم درد تو دیتے ہو دوا کیوں نھیں کرتے

کیوں بیٹھے ہو خاموش سرہانے میرے آکر
یارو میرے جینے کی دعا کیوں نہیں کرتے

پھولوں کی طرح جسم ہے ، پتھر کی طرح دل
جانے یہ حسیں لوگ وفا کیوں نہیں کرتے

ہر بات پرندوں کی طرح اڑتی ہوئی سی
جو بات بھی کرتے ہو سدا کیوں نہیں کرتے

بس مل چکا ثواب بصورت ہمیں عذاب
اتنی وفا کے بعد جفا کیوں نہیں کرتے

زاہد ہی کہہ رہا تھا پلا کر ہمیں شراب
ممکن ثواب میں بھی خطا کیوں نہیں کرتے

لو دیکھو حمیدی لب دریا پہ ہے دریا
پر پیاس ہے کب کی یہ پتا کیوں نہیں کرتے
: پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے