اس کے بعد کیا ہوتا ہے ،وہ جانیں یا عدالت

ہمارے چند معصوم صفت نوجوان ہیں۔ ان کی سادگی میں پرکاری کی ملاوٹ نہیں۔ تغافل میں اگرچہ جرا¿ت آزما ضرور نظر آتے ہیں۔ پشاور کے APSوالے واقعہ کے بعد سے فرض کئے بیٹھے ہیں کہ پاکستان کی ریاست نے مذہب کے نام پر انتہاءپسندی کو فروغ دینے والوں کو لگام ڈالنے کا قطعی فیصلہ کرلیا ہے۔ اسی لئے فوجی عداتیں بحال ہوئیں۔ تحفظ پاکستان والا قانون بنا جس کی بدولت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی قانونی رکاوٹ کے بغیر مشتبہ افراد کو 90روز کے لئے گرفتار کرنے کا اختیار ملا۔

اس اختیار کا بھرپور استعمال ہمیں ڈاکٹر عاصم حسین کے معاملے میں ذرا واضح انداز میں دیکھنے کو ملا۔ وہ اگرچہ بذاتِ خود دہشت گرد نہیں سہولت کار ٹھہرائے گئے ہیں۔ ان کی گرفتاری سے کہیں زیادہ اہم مگر لیاری کے نامی گرامی دہشت گرد، عزیر بلوچ، کی اس علاقے کے عین مرکز میں واقع چاکیواڑہ سے گرفتاری ہے۔ وہ دہشت گرد بھی اب نوے روزہ ریمانڈ پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حواے کردیا گیا ہے۔

ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ سے وابستہ کہانیوں کے مسلسل انکشافات پر مطمئن ہوکر لطف اندوز ہونے کے بجائے چند معصوم صفت نوجوان جن کی سادگی ابھی تک پرکاری کی گہرائی تک نہیں پہنچ پائی ہے، کئی دنوں سے دہائی مچائے چلے جارہے ہیں کہ پاکستان کے دارالحکومت میں سرکاری خزانے سے تعمیر ہوئی اور مرکزی حکومت کے زیر انتظام لال مسجد کے خطیب مولوی عزیز کو بھی مذہب کے نام پر اشتعال انگیزی اور انتہاءپسندی پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا جائے۔

 

یہ مطالبہ کرتے ہوئے میرے معصوم صفت نوجوان یہ حقیقت بھلا بیٹھے کہ پاکستان ایک جدید ریاست ہے۔ یہاں کے شہریوں کے فرائض ہوں یا نہ ہوں چند حقوق البتہ بالکل اٹل ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی حکومت کے لئے ان حقوق کا احترام تو ہر صورت لازمی ہے۔

موجودہ جمہوری حکومت کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ویسے بھی ایک جہاندیدہ اور انتہائی تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ ان کی اصول پسندی کے ہم سب کالم نگار دل وجان سے معترف ہیں۔ چکری کے خاندانی اور پیال راجپوت، نثار، حیران کن حد تک صاف گوہیں۔ انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جائے تو صاف لفظوں میں دُنیا کو بتادیتے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم نے کئی مراعات سے نواز کر قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف بنے خورشید شاہ کا منہ بند کررکھا ہے۔ خورشید شاہ کی مناسب ہینڈلنگ کی بدولت عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دیتے وقت تنہا نظر آئے۔ حزب مخالف کی تمام جماعتوں کو اپنا اتحادی بناکر ”دھاندلی زدہ انتخابات“ کی وجہ سے قائم ہوئی نواز حکومت سے جان نہ چھڑا پائے۔

اس سچے اور کھرے وزیر داخلہ نے ہمارے معصوم صفت نوجوانوں کو کئی بار سمجھایا کہ مولوی عزیز کے خلاف دہشت گردی یا اشتعال انگیزی کے الزامات کے تحت کوئی مقدمہ وغیرہ درج نہیں ہے۔ انہیں کن بنیادوں پر گرفتار کیا جائے۔ معصوم صفت نوجوانوں نے مگر ان کی بات نہیں سنی۔ تھانے کے ریکارڈ سے چند FIRsوغیرہ نکالیں۔ انہیں پیپلز پارٹی کے چند سینیٹروں کے حوالے کردیا۔

پی پی پی کو ویسے ہی ان دنوں ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ سے توجہ ہٹانے کے لئے چند مضوعات کی تلاش تھی۔ معصوم صفت نوجوانوں کو ان کی سیاسی معاونت میسر آگئی۔ ایوانِ بالا میں شورمچا تو مولوی عزیز جنہیں کچھ دن قبل تک ”استخارہ“ تھانے یا عدالت میں پیش ہونے کی اجازت نہیں دے رہا تھا، مقامی عدالت سے قبل از گرفتاری والی ضمانت کی درخواست کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے وہ جانیں یا مقامی عدالت۔

میرے لئے فی الوقت اہم بات تو یہ ہے کہ مولوی عزیز نے اتوار کی شام اپنی برقعہ پوش اہلیہ سمیت ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس پریس کانفرنس کے ذریعے انہوں نے فراخ دلی سے جنرل مشرف کو اپنے بھائی -غازی رشید- کے قتل کے الزام کے حوالے سے ”معاف“ کردیا۔ مجھے ہرگز سمجھ نہیں آئی کہ چند معصوم صفت نوجوانوں کی جانب سے چلائی ایک سادہ سی تحریک کا جنرل مشرف پر لگائے الزامات سے کیا تعلق تھا۔ الزام تو شاید یہ معصوم صفت نوجوان مولوی عزیز کی ذاتِ بابرکات کے اوپر لگارہے تھے۔ بجائے ان کا دفاع کرنے کہ مولوی عزیز نے مگر جنرل مشرف کو فراخ دلی سے معاف کردیا ہے۔ انہیں معافی کا یہ اعلان کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ میں اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب ابھی تک نہیں ڈھونڈ پایا۔

اسلام آباد مگر ایک عجیب شہر ہے۔ یہاں سازشی داستانیں سنانے والے قصہ گو ایک ڈھونڈنے نکلو تو ہزار مل جاتے ہیں۔ ان میں سے چند داستان گو کئی روز سے مسلسل دعویٰ کئے جارہے ہیں کہ مولوی عزیز سے ریاستِ پاکستان کے کچھ نمائندے مسلسل مذاکرات میں مصروف رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے ایسے مذاکرات ہوئے ہوں۔ اگرچہ یہ بات میرے بھیجے میں ہرگز نہیں سمارہی کہ مولوی عزیز ان مذاکرات کے دباﺅ میں آکرجنرل مشرف کو معافی دینے کا اعلان کرنے پر کیوں مجبور ہوئے ہوں گے۔ میں اب نوجوان تو ہرگز نہیں رہا مگر کئی حوالوں سے پرکار زندگی گز ارنے کے باوجود بھی ابھی تک کافی سادہ اور معصوم ہوں۔

آخری خبریں آنے تک جنرل مشرف کے خلاف ”آئین سے غداری“ جیسے سنگین الزام کے تحت کوئی مقدمہ وغیرہ چل رہا تھا۔ یہ مقدمہ کسی عام شہری نے نہیں حکومتِ پاکستان نے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے اتباع میں درج کیا تھا۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایک طرف ریاستِ پاکستان جنرل مشرف کے خلاف ”آئین سے غداری“ جیسے سنگین الزامات کے تحت ایک مقدمہ قائم کرے اور دوسری طرف اس ریاست ہی کے کچھ نمائندے مولوی عزیز سے ایسے مذاکرات کا آغاز کریں جن کے نتیجے میں وہ انتہائی فراخ دلی سے سابق صدر کو معاف کردیں۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے، والا معاملہ ہوگیا ہے۔

ایک پرکار زندگی گزارنے کے باوجود اگر میں بھی اس پورے قضیہ سے جڑی الجھنوں کو سلجھانہیں پارہا تو پرکاری سے محروم جرات آزمائی میں مصروف چند معصوم صفت نوجوان کیا سمجھ پائیں گے۔ مولوی عزیز کا ایک گِلہ اگرچہ قابلِ توجہ ہے جو اتوار کو اپنی پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے آشکار کیا۔
انگریزی کے موقر معاصر DAWNکے رپورٹر کے مطابق اتوار کی شام ہوئی پریس کانفرنس میں مولوی عزیز نے یہ بھی فرمایا:”یہ بہت عجیب بات ہے کہ (ہماری) ریاست جہادیوں کو اسلام کے فروغ کے لئے تیار کرتی ہے(لیکن) جب یہ جہادی ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیںتو ریاست (اس مطالبے کو) اپنی حاکمیت کے لئے خطرہ قرار دے ڈالتی ہے“۔

مولوی صاحب کے ان فقروں میں چھپاگِلہ میں تو خوب سمجھ گیا ہوں۔ کاش چند معصوم صفت نوجوان بھی ان الفاظ کی پرکاری کو پوری طرح سمجھ کر اپنی جرات آزمائی سے باز آجائیں۔

بشکریہ نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے