پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ جب سے منظر عام پر آیا ہے ۔ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس کے بارے میں گرماگرم بحثیں مذاکرے اور مباحثے جاری ہیںخود پاکستان کے اندر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ایک طرح کی کشمکش اوررسہ کشی جاری ہے۔ ایک عام شہری کی نگاہ میں پاک چین اقتصادی راہداریKKH کا دوسرا نام ہے جسے مذید توسیع دیکر اور بہتر بناکر اس قابل بنایا جائیگا کہ اس پر سے بھاری گاڑیاںآسانی اور محفوظ طریقے سے چلائی جاسکیںیا پھر چین اور پاکستان کے درمیان KKH کے متوازی ر یلوے لائن بچھائی جائیگی ۔ دنیا میں زمانہ قدیم سے ملکی معشیت اور تجارت کےلئے مواصلات کو بنیادی اہمیت دی جارہی ہے ۔ جن ملکوں میں زمینی مواصلات کا نظام اچھاہوتاہے تو وہ ملک اقتصادی لحاظ سے اُن ملکوں کے مقابلے میں جن میں موصلاتی نظام ناقص یا ناکافی ہوتا ہے ۔بہت زیادہ مظبوط اورطاقتور ہوتے ہیں۔
قراقرم ہائے وے (KKH) کی تعمیر سے پہلے گلگت بلتستان میں مواصلات نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں بنانا مشکل تھا صرف چھوٹے چھوٹے راستوں سے کام لیا جاتا تھا جن پر انسان پیدل جل سکتا تھا یا زیادہ سے زیادہ گدھے ، گھوڑے وغیرہ چل سکتے تھے۔1947ءسے پہلے گلگت بلتستان کا اندورنی اورپاکستان ،چین، اور جموں و کشمیر کے ساتھ پہاڑی دروں سے گزرنے والے تنگ اور مشکل راستوں کے ذرئعے ہوا کرتا تھا،جسے عالمی سطح پر سلک روٹ کے نا م سے جانا جاتا تھا۔ یہ روٹ ایک طرف گلگت سے نگر ،ہنزہ وہوتے ہوئے خنجراب سے گزر کر کاشغرجاتا تھا دوسری طرف گلگت سے استور ہوتاہوا جموں و کشمیر جاتا تھا اور تیسری طرف سے چلاس اور بابوسر سے ہوتا ہوا خیبر پختونخواہ جاتا تھا۔ جن پر انسان یا تو پیدل سفر کرسکتا تھا یا پھر زیادہ سے زیادہ گھوڑے ، گدھے اور خچروں پر۔KKH کی تعمیر کے بعد ابتدائی دور میں چھوٹی گاڑیاں چلنا شروع ہوئیں خاص کر ولس جیپیں اور ٹریکٹر وغیرہ۔ اب جبکہ KKH پوری طرح سے تعمیر ہوچکا ہے اس پر نہ صرف ٹرک اور بسیں چلنے لگی ہیں بلکہ 12 ویلر ٹرالر ز بھی چلنے لگے ہیں۔ جن کے ذریعے ہزاروں ،لاکھوں ٹن مال سالانہ چین سے پاکستان اور پاکستان سے چین لایا اور لے جایا جاتاہے ۔
پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر سے چین اور پاکستان کے درمیان نہ صرف 20 ویلر ٹرالرزگزرسکیں گے بلکہ ریل بھی چلائی جاسکے گی۔اس کے علاوہ ان کے متوازی گیس،تیل اورفائبر کی ترسیل کےلئے پائپ بھی بچھائی جا سکے گی۔ اس راہداری کی تعمیر سے نہ صرف پاکستان اور چین کے درمیان تجارتیحجم میں ہزاروں گنااضافہ ہوگا بلکہ وسط ایشیا برصغیر اور عرب ملکوں میں بھی معاشی انقلاب آجائیگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ راہداری کہاں سے شروع ہوگی کہاں کہاں سے گزرے گی اور کہا ں کہاں تک جائیگی۔ ابتداءمیں یہ کاشغر سے شروع ہوگی نگرہنزہ سے ہوتے ہوئے اور گلگت سے دریا سندھ کے ساتھ گزرتے ہوئے کراچی اور گودار تک جائیگی۔گوادر اور کراچی سے ہوتے ہوئے کوئٹہ سے گزرتے ہوئے تفتان ایران تک اورا دھر لاہور سے واگہ اور گنڈا سنگھ والا سے ہوتے ہوئے بھارت جائے گی۔
پاک چین راہداری کی تعمیر اور اسکی گزرنے کی جگہوں کے بارے میں جہاںوفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان غلط فہمیاں اور تحفظات پائے جاتے ہیں وہاں پر گلگت بلتستان کے لوگوں میں بھی مختلف شکوک و شبہات اور تحفظات سر اُٹھانے لگے ہیں۔ صوبوں کی طرح گلگت بلتستان کے تحفظات کو اگر دور کئے بغیر راہداری کی تعمیر شروع کی جاتی ہے تو وفاقی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اس کی تعمیر میں مسائل اور رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں ۔جہاں تک پاکستانی صوبوں اور گلگت بلتستان کے راہداری پر تحفظات کا تعلق ہے تو یہ یکسر مختلف ہیں ۔صوبوںکو اگر اعتراض ہے تو اس کے گزرنے کے مقامات اور اس سے حاصل ہونے والے اقتصادی مفادت سے متعلق ہیں مگر گلگت بلتستان کے تحفظات علاقے کی آئینی حیثیت کے تعین اور اس کے غیر یقینی مستقبل کے بارے میں ہیں ۔
گلگت بلتستان ، پاکستان کی آئینی ،سیاسی اور جغرافیائی حصہ نہیں ۔اس بد قسمت علاقے کو یہاں کے لوگوں کی خواہش اورمخلصانہ پیشکش کے باوجود پاکستانی حکمرانوں نے اس کو پاکستان میں شامل کرکے اس کا آئینی حصہ بنانا ضروری نہیں سمجھا ۔نہ صرف ضروری نہیںسمجھا بلکہ اسکی آزادی بھی چھینکراور انفرادی حیثیت بھی ختم کر کے کشمیر کا حصہ تسلیم کرتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے بھارت کے ساتھ متنازعہ بھی بنادیا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو گلگت بلتستان سے راہداری گزارنے کا کوئی قانونی حق نہیں۔ گلگت بلتستان سے اگر راہداری کو گزارنا ہے تو یہاں کے لوگوں کی منظوری سے ہی گزارنا ہوگی اور یہ بھی دو ریاستوںاور فریقوں کے درمیاں معاہدے کی شکل میں بالکل ویسا ہی معاہدہ جیسا 1935ءکو انگریزوں اور مہاراجہ کشمیر کے درمیان معاہدہ گلگت ہوا تھا۔ انگریز، روس کی گرم پانیوںتک رسائی کی کوشش کو ناکام بنانا چاہتا تھا اور یہ صرف اسی صورت ہی ممکن ہوسکتاتھا کہ گلگت سے ملحقہ علاقے چلاس ،نگر، ہنزہ اور غذر میں انگریز موجود ہوں۔اپنی موجودگی کو قانونی شکل دینے کےلئے انگریزوں کو 60 سال کےلئے گلگت ایجنسی کولیز پر لینا پڑا۔ پاکستانی حکمرانوں نے گلگت بلتستان کو نہ تو پاکستان کا ریاستی حصہ بنایا ہے اور نہ ہی اسے یہاں کے لوگوں کے ساتھ کسی معاہدے کے تحت اس پر تصرف کا حق حاصل کیا ہے البتہ زبردستی سے اس کا نظم و نسق اپنے ہاتوں میں لے رکھا ہے۔کسی علاقے کا کسی ریاست کا یا ملک کا آئینی حصہ ہونا اور بات ہے۔لیزپر لینا اوراسکو زیر انتظام رکھنا اور بات ہے۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں اگر یہ گلگت بلتستان کے علاوہ کسی اور جگہ سے بنائی جاتی ہے ۔اور اگر اسے گلگت بلتستان کے سینے سے ہی گزارنا ہے تو پھر یہاں کے لوگوں اور نمائندوں ،صوبائی حکومتی نمائندوں گلگت بلتستان کے عوامی نمائندوں جن کو نمبردار علاقے کے بزرگ اور معتبر کہاجاتاہے ۔کے ساتھ باقائدہ معاہدے کے ساتھ تعمیر کی جائے۔ علاوہ اس کے اگر حکمران راہداری کو گلگت بلتستان سے گزارنے پر بضد ہیں تو یہاں کے لوگوں کی مجبوری ہوگی کہ وہ اسکی بھر پور مذاحمت کریں ۔ راہداری کی تعمیر پر گلگت بلتستان کے تمام لوگوںکواور بلخصوص اکثریتی مکتب فکر کے کئی تحفظات ہیں ۔ اور انکے تحفظات کی وجہ حکمرانوں کا آزادی سے لیکر اب تک ان کے ساتھ روا رکھا جانیوالا نا مناسب، متعصبانہ اور معاندانہ سلوک اور طرز عمل ہے ۔ خاص کر 1988 ء کے بعد پاکستانی حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ وہ گلگت بلتستان سے راہداری نہیں گزارسکتے اس لئے کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے جسے انہوں نے خود متنازعہ بنایا ہے یہاں کے لوگوں نے نہیں۔ حکمران اپنی اس غلطی کے ازالہ کےلئے نہیں بلکہ اپنے منصوبے پر عمل در آمد کرنے کے لئے ایک ایسے منصوبے پر غور کررہی ہے جو نہ صرف ناقابل عمل ہے بلکہ انتہائی خطرناک اور تباہ کن بھی ہے۔ منصوبے کے مطابق گلگت بلتستان کو دو حصوں میں بانٹ کر ایک حصے کو پاکستان کا حصہ بنانا اور دوسرے حصے کو متنازعہ ہی رہنے دیناہے۔یعنی چلاس، گلگت ،نگر ہنزہ اور غذر کو غیر متنازعہ قرار دیکر پاکستان میں شامل کرنا اور استور اور بلتستان ریجن کو متنازعہ قرار دیکر آزاد کشمیر کے ساتھ ملانے یا پھرحسب سابق اسی طرح متنازعہ رکھنا ہے۔حکومت کی طرف سے اس انوکھے اچھوتے اور نادر منصوبے کو وفاقی سطح پر منظر عام پر لانے سے پہلے غالباً گلگت
بلتستان کا ردِعمل معلوم کرنے کی غرض سے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی زبان سے اخباری بیان کے ذریعے کرایا ہے۔ وفاقی حکومت کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمان نے اس منصوبے کو منظر عام پر لانے سے پہلے صوبائی حکومت کی طرف سے ایک آل پارٹیز کانفرنس کرائی تھی اور اس میں صرف یہی ایک ایجنڈا رکھا گیا تھا کہ گلگت بلتستان کا مستقبل کیا ہونا چائیے ۔ باالفاظ دیگر عرف عام میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کیا ہونی چائیے۔اس کانفرنس میں گلگت بلتستان میں موجود تقریباً تمام وفاقی ،سیاسی جماعتوں اور مقامی قوم پرست جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی ۔کانفرنس کے شر کاءحسب سابق کسی ایک نقطہ پر متفق نہیںہو سکے البتہ معمولی اکثیریت کے ذریعے اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقائدہ آئینی صوبہ بنایا جائے۔ اسی بنیاد پر ہی پی ایم ایل (ن) کے رکن اور سپیکر صوبائی اسمبلی فدا محمد ناشاد نے قرارداد پڑھی اور از خود اسے پاس بھی کیا۔ وزیر اعلیٰ اسی قرار داد کو لیکر وفاقی حکومت سے ملے اور اسے پیش کیا۔ وفاقی حکومت بخوبی جانتی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کو کسی صورت میں بھی پاکستان میں آئینی طورپر ضم نہیں کرسکتی ۔اگر یہ ایسا کرنے کی حماقت کرتی ہے تو اسے نصف صدی سے زیادہ عرصے سے جاری و ساری تنازعہ کشمیر سے دست بردارہونا پڑے گااورنہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی ہاتھ دھونا پڑیگا۔ اور اگر ایسا نہیں کرسکتاہے ۔۔۔۔!یقینا ایسا نہیں کرسکتا ہے تو متنازعہ علاقے سے راہداری نہیں گزارسکتا ہے ۔ وفاقی حکمرانوں کی مثال اُس شخص کی سی ہے جو اپنی منزل کو کھو چکا ہے ۔ منزل کا راستہ بھول چکاہے اور ا یسے راستے پر چل پڑا ہے جس کے آگے اژدھا بیٹھا ہے اور پیچھے گہرا سمندر ہے۔ آگے جاتاہے تو اژدھا کا لغمہ بنتا ہے اورپیچھے ہٹتا تو ہے تو سمندری موجوں اور شارکوں کا شکار ہوتا ہے ۔
وفاقی حکمرانوں نے اپنی مشکل دور کرنے اور اژدھا اور سمندر سے بچنے کے لئے اپنے ہی زم میں ایک محفوظ راستہ نکالنے کی کوشش کی ہے مگروہ نہیں جانتے یہ راستہ ان کا اختیار کردہ راستے سے بھی کہیں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔حکمران اپنی دانست میںایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے والی پالسی اختیار کرنا چاہتی ہے اسی پالسی کے تحت گلگت بلتستان کو دو حصوں میںکرنا چاہتی ہے۔ وفاقی حکمرانوں نے گلگت بلتستان کے اکثیریتی جماعتوں کی رائے کو جس میں گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی صوبہ بنانے کا ذکر ہے حسب روایت مسترد کرتے ہوئے اپنی طرف سے ایک فارمولہ سامنے لایا ہے اس انوکھے ،اچھوتے اور متعصبا نہ فارمولے کے تحت گلگت بلتستان کو دو حصوں میں تقسیم کرناہے ۔ایک حصہ کو متنازعہ رہنے دینا اور ایک حصہ کو پاکستان کا حصہ بنانا ہے ۔ چلاس،گلگت،نگر ،ہنزہ اور غذرکو غیر متنازعہ اور استور ،روندو،سکردو ،شگر،خپلواور گانچھے کو متنازعہ رہنے دیناہے۔وفاقی حکمرانوں کو 69 سال کے بعد احساس ہونے لگا ہے کہ کشمیر پر استصواب رائے کے مقابلے میں پاک چین اقتصادی راہداری کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
وفاقی حکمرانوں کا معاملہ اس قوم کی طرح ہے جوحوادث کا مسلسل شکار رہنے اور غلطیوں پر غلطیاں کرنے کے بعد پشیمان ہوتی ہے اس لئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے” ہائے اُس ذود پشیماں کا پشیماں ہونا ” گلگت بلتستان کے لوگوں کو اپنے علاقے کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانے پر نہ صرف کوئی اعتراض نہ تھابلکہ یہ انکا دیرانہ بلکہ شروع دن سے ہی مطالبہ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنایا جائے۔ اب بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کو صوبہ بنانے پر کوئی اعتراض نہیں مگر اسکے حصے بخرے کرکے ،دھڑوں میں بانٹ کر اور بد نیتی کے ساتھ نہیں بلکہ نیک نیتی کے ساتھ اور مکمل اکائی کی حیثیتمیںاور اگر کسی بد نیتی یا فرقہ وارانہ تعصب کے تحت ایسا کرنے کی غلطی یا کوشش کی گئی تو اس کی گلگت بلتستان کے لوگوں کی طرف سے ویسی ہی مذاحمت کی جائے گی جیسی مذاحمت ویت نام نے انگریزوں کے خلاف،فلسطین نے اسرائیل کے خلاف، آئر لینڈ نے برطانیہ کے خلاف، یمن نے سعودی عرب کے خلاف اور افغانستان نے امریکہ کے خلاف کی ہے اور کررہے ہیں۔بادی النظر میں گلگت بلتستان کی تقسیم کی بات پاک چین اقتصادی راہداری کے تناظر میں کی جاتی ہے مگر اسکے پس ِ پردہ موجودہ وفاقی حکومت کے گلگت بلتستان کے لوگوں کےخلاف باا لعموم ایک مکتب فکر کے خلاف متعصبانہ بلکہ معاندانہ عزائم کارفرما نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے متعصب حکمران ،سیاست دان، سرکاری آافیسروں ، دانشور اور دینی علماءگلگت بلتستان کے لوگوں سے اور خصوصاََ ایک فرقے سے ازلی دشمنی رکھتے ہیں۔ اور مستقبل میں اس علاقے میں میں فرقہ ورانہ کشید گی کو ہوا دینے کی کاوشوں میں کارفر ما نظر آتے ہیں موجودہ جی بی کی صوبائی حکومت کا گلگت بلتستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بھی اسی سازش کی ایک کڑی ہے۔یہاں کے عوام کومستقبل میںان شازشوں کو بے نقاب کرکے ان کے خلاف ایک آہنی دیوار بن کر ڈٹ جانے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ بروشال ٹائمز گلگت