فطرت کے اصولوں سے مفر نہیں مگر کسی کے روٹھ جانے سے‘ٹوٹ جانے سے ‘منہ موڑ جانے سے ‘دل توڑ جانے سے اور دور چلے جانے سے جوکمی و خلاء پید ا ہوتا ہے اسے مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ہم بحثیت قوم و مسلک مردہ پرست ہیں ‘زندہ کی قدر نہیں اور مرجانے والے کی شان میں چھپے ہوئے رموز کو آشکار کرنا ہم سے زیادہ بھلا کون جانے ہے ۔مگر اب شاہد خون سفید ہی نہیں پیلے بھی ہوتے جارہے ہیں ۔میڈیا کی منڈی میں جہاں دام زیادہ لگے وہیں ڈھیر ہونے کا رواج عام ہو چکاہے ۔یہ بے رحم منڈی ہے ‘عدل کا عین بھی اس سے نہیں گذرا اور حقائق سے اس کو بس مطلب اور ’’پالیسی ‘‘تک کا سروکار ہے۔یہاں غریب ناچے تو کمینگی اور باعث شرم ہے اور امیرکا ناچ ثقافت اورپرفامنس کہلاتا ہے ۔غریب کرے تو بء حیائی اور امیر کرے تو اداکاری اور آرٹ کہلاتا ہے ۔عام شخص کی رکھے تو دہشت گرد اور ان کے پروگراموں کی ضرورت ہو تو داڑھی سنت رسول بن جاتی ہے ۔مذہب لکھنے اور پڑھانے والا یاداڑھی اور جبے میں ملبوس ادب لکھے تو کوئی پروا نہیں مگر روشن خیال ادیب تاریک خیالی میں کچھ بھی لکھے وہ ملک کا سرمایہ کہلاتا ہے اور اس کی موت پر تعزیتی ریفرنس منعقد ہوئے ہیں ۔
حالیہ کچھ عرصہ میں شخصیات کے اموات پر میڈیا کا کردار کو عام آدمی اور سماج نے اپنے رویے میں بہت ڈسکس کیا ہے ۔عالمی دنیا میں اس وقت بچوں کے ادب کو تخلیق کرنے والا ایک اکیلا نام ہے اشتیق احمد ۔جس کی موت پر میڈیا میں وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ مستحق تھے ۔اشتیاق احمد کو ہم نے بچپن میں پڑھنا شروع کیا تھا پھر یوں ہوا کہ ان کی تحریروں نے اپنے عشق میں ایسا گرفتار کیا کہ کسی اور کی محبت کے قابل نہیں چھوڑا۔ جھنگ کے پنڈی محلہ میں رہنے والے‘ انسپکٹر جمشید سیریز، شوکی سیریز کے خالق اشتیاق احمد 5 جون 1942 کو انڈیا کے شہر پانی پت کے علاقے کرنال میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم ہندوستان کے بعد ان کے والدین ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور جھنگ میں مقیم ہوگئے تھے۔ انہوں نے 800 سے زائد ناول تحریر کئے‘ ان کا پہلا ناول پیکٹ کا راز تھا‘ جس نے بے حد مقبولیت حاصل کی تھی ۔ انہوں نے اپنے روحانی استاد اور عمران سیریز کے خالق ابن صفی سے متاثر ہو کر ایک ناول عمران کی واپسی تحریر کیاتھا جو کہ ان کی زندگی کی آخری دنوں میں شائع ہونے والی تحریر ہے۔ اشتیاق احمد نے 71 برس کی عمر پائی۔ انہوں نے پسماندگان میں ایک بیوہ، 5بیٹے اور 3بیٹیوں کو چھوڑا ہے۔
گزشتہ دنوں کراچی میں ایک معروف اور عظیم مْحقق، مْفسر ومْحدث اور خالص علمی شخصیت اس جہاں سے رخصت ہوئی ہیں ۔شہر کے لیڈنگ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینل کو عمران خان اور ریحام کے پہلے روز پہننے والے کپڑے اور انہیں تیار کرنے والے کمپنی کی خبر مل جاتی ہے کس بیوٹی پارلر پر ان کی شکلوں کو دوبارہ رنگیں کیا گیا ہے‘خبریں بن جاتی ہیں مگر سماج پر لا تعداد احسانات کرنے والے درویشان خدا مست کی زندگیاں تو درکنار ان کی اموات کی خبر تک نہیں شائع کی جاتی ہے۔جامعہ نعیمیہ کراچی کے شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی طویل علالت کے بعد اسپتال میں انتقال کرگئے تھے ‘ ان کی عمر 80برس تھی۔ مرحوم نے اپنی پوری زندگی علمِ دین کی ترویج واشاعت کے لئے وقف ہوئی تھی۔
مولانا کا پہلی بار تعارف مجھے آج سے چار برس پہلے ہوا تھا‘پنڈکمال خان رہائشی اور مدرسہ رحمانیہ ہری پور کے معلم مولانا حافظ سلطا ن کو غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ کی مسلم شریف کی کتاب جو کئی جلدوں پر تھی بھیجنی تھی‘اس درویش صفت انسان کا سماج پر احسان ہے جس کا بدلہ کہیں بھی نہیں چکایا جاسکتا ہے ۔ان کی تصانیف میں تبیان القرآن کے نام سے تفسیر کی 13جلدیں، تبیان الفرقان کے نام سے لکھی گئی تفسیر کی 6 جلدیں ‘صحیح بخاری کی شرح نعم الباری کی 17جلدیں‘ مسلم شریف کی شرح کی 8جلدیں‘ مقالاتِ سعیدی، توضیح البیان، تاریخِ نجدوحجاز، تذکرۃ المْحدثین، مقام ولایت ونبوت اور ذکر بالجہر جیسی معرکۃ الآرا تصانیف شامل ہیں۔
علامہ غلام رسول سعیدی 1937ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کی تدریسی زندگی 50سے زائدسالوں پر محیط ہے۔ اْن کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستا ن نے انہیں تمغہ امتیاز سے نوازرکھا تھا جس کا کوئی ناز نہیں تھا جبکہ میڈیا کی منڈی میں ابھر ابھر کرآنے والے ایسے علماء نما بھی موجود ہیں جنہیں کی آخری اور پہلی خواہش ہی ایہ تمغہ ہے۔ وہ اپنے عہد کے عظیم مْدرس علامہ عطا محمد بندیالوی کے شاگرد تھے۔ علامہ غلام رسول سعیدی کے تلامذہ دنیا بھر میں موجود ہیں اور نامور علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ علامہ غلام رسول سعیدی دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں مسلسل 32سال شیخ الحدیث کے عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں ۔ ان کی نمازِ جنازہ گزشتہ جمۃ المبارک کو چار بجے جامع مسجد اقصیٰ کراچی میں اداکی گئی تھی ۔مولاناکو اللہ تعالی نے دونوں ہاتھوں سے لکھنے کی صلاحیت عطا کی تھی جس کا انہوں نے صحیح معنوں میں استعمال کیا ہے ۔
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
یہ بات طے ہے کہ اگر ہم یوں ہی اپنے قیمتی اثاثوں کی بے توقیری کا عمل جاری رکھا تو پسپائی اور مذلت سے ہمیں بچانے والا کوئی نہیں ہے کیوں کہ جس قوم نہیں علم کو فوقیت نہیں دی اس کو دنیا میں عزت نہیں ملی ۔زیادہ عرصہ نہیں ہو ا‘30 برس قبل سری لنکا کے لوگ پاکستان حصول علم یا حصول روزگار کیلئے پاکستان آجاتا تھا اس کو سری لنکا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر رفتہ رفتہ سری لنکا کی حکومت نے تعلیم کو اہم ضرورت اور ترقی کی اول سیڑھی سمجھا اور اس مد میں 15 فیصد سے زیادہ رقم سالانہ بجٹ میں مخصوص کی گئی تو آج وہاں تعلیم کی شرح 90 فیصد سے زائد ہے، اس کا اثر یہ ہوا کہ 1970 سے تامل اور سنہلالی تعصب ختم ہوا اور تامل ٹائیگر آزاد ریاست کی جنگ ہار گئے، سری لنکا کے تامل بولنے والوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی، نسلی امتیاز، اور تامل علاقوں کو ترقیاتی حصہ نہ ملا، غربت بے روزگاری نے تامل عوام کو پربھاکرن کی قیادت میں منظم کردیا مگر نسلی امتیاز کے خاتمے، ترقیاتی اخراجات میں
اضافے اور تعلیم کی شرح میں اضافے نے صورت حال کو یکسر تبدیل کردیا۔
زیادہ دن نہیں گذرے کہ ہمارے پاس ایبٹ آباد میں ایک بیش بہا علمیت و صلاحیت کار ایک نوجوان موجود تھا ‘کہاں کہاں آواز نہیں پہنچائی گئی مگر اس بہترین کمپیوٹر انجنیئراسکندربلوچ کو امریکا نے بلا لیا ہے اور یہ کہہ کر بلا لیا ہے کہ تم ہمارا اثاثہ ہو ۔ہمیں جب بھی کسی ماہر کی ضرورت پڑی ہے تو ہم نے معض وقتی طور ہر اس کا استعمال کیا ہے جس کے بعد وہ صلاحیت کار ہماری ضرورت نہیں رہتا ہے ۔آخرکب تک کسی صلاحیت کار کو ’’اٹھا ‘‘کو اس کے فن سے کھیلے جانے کا سلسلہ رہے گا ؟کاش کہ ایسا نہ ہوتا اور ہم اپنے صلاحیت کو ضائع ہونے سے بچاتے اور ملک کا حقیقی اثاثہ بناتے ۔