گزرتے وقت کے ساتھ اہل صحافت کی کارگزاری مایوس سے مایوس تر ہوتی جا رہی ہے۔ پہلے ہی گنے چنے لوگ ایسے تھے جن سے پیشہ وارانہ اختلاقیات اور دیانت داری کی توقع رکھی جا سکتی تھی۔ لیکن اب دن بدن انکی تعداد گھٹتی چلی جا رہی ہے۔
پاکستان میں تحقیقات صحافت بہت بدنام ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ "کہیں” سے عطا ہونے والی فائلوں میں درج معلومات کے مطابق خبر بنانے کو ہی تحقیقاتی صحافت کہا جاتا ہے۔ لیکن میرا ذاتی گمان یہی تھا کہ ‘انصار عباسی صاحب’ اور اُن کی ٹیم کے ارکان اس سے مستشنٰی ہیں۔ کیوں کہ یہ تمام لوگ پیشہ وارانہ اخلاقیات اور دیانت داری کا خیال رکھتے ہیں۔ خصوصا ‘انصار عباسی صاحب’ کی موجودگی کے حوالے سے یہ حُسن ظن کچھ زیادہ ہی تھا۔
لیکن چند روز قبل انصار عباسی صاحب کی تحقیقاتی ٹیم کے اہم رکن عمر چیمہ نے جو حرکت کی اُس نے ثابت کر دیا کہ یہ سارا حُسن ظن سراسر بے وقوفی پر مبنی تھا۔ عمر چیمہ صاحب نے امریکی سفارتخانے سے 12 جون 2015 کو جاری ہونے والے ایک پرانے لیٹر کو 4 فروری 2016 کو انکشاف بنا کر پیش کیا۔ اُن کا یہ "کام” صرف یہیں تک محدود نہیں تھی۔ سفارتخانے کے لیٹر میں کسی "کمپنی یا ادارے” کا ذکرنہیں تھا، نہ ہی کسی جعل سازی کا کوئی ذکر تھا۔ بلکہ ایف آئی اے کے خط کے جواب میں صرف اتنا کہا گیا تھا کہ دفتر میں موجود ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں کسی کو امریکی ڈگریوں کی تصدیق کی اجازت حاصل نہیں ہے۔ سفارتخانے نے واضع طور پر درج کیا تھا کہ یہ لیٹر فوری جواب ہے اس لئے یہ "آفیشل حیثیت” نہیں رکھتا، لہذا اسے کسی عدالتی کاروائی یا تفتیش میں ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اس کے باوجود ‘انصار عباسی صاحب’ کے تحقیقاتی سیل کے رکن عمر چیمہ کے نام سے جنگ، دی نیوز اور جیو پر خبر چلتی رہی کہ امریکی ادارے "ایف بی آئی نے ایگزیکٹ کی جعلی جامعات اور ڈگریوں کے کاروبار کی تصدیق کر دی ہے” اور یہ بھی کہ "تمام آن لائن جامعات جعلی سرگرمیوں میں ملوث ہیں”۔ ساتھ میں اعلیٰ پائے کے تحقیقاتی رپوٹر نے مبینہ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ اب عمر چیمہ یا انصار عباسی صاحب اتنے لاعلم تو ہونے سے رہے کہ انہیں علم نہ ہو کہ مبینہ کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ یہ لفظ کسی ابتدائی خبر میں تو استعمال کیا جاتا ہے لیکن کسی آفیشل تصدیقی لیٹر میں اس کا استعمال ایک مذاق سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
اس مبینہ کے لفظ کے استعمال سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ بھی نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ اور خبر کے محرکان کو اس کا جھوٹ ہونا واضح تھا۔ تبھی انہوں نے کسی ممکنہ قانونی کاروائی سے بچنے کے لئے مبینہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس لفظ کے استعمال نے "تصدیق” کے غبارے سے ہوا نکال دی تھی۔ اردو اخباری زبان سے واقفیت رکھنے والے ہر فرد پر واضح ہو گیا تھا کہ تضادات کی شکار اس خبر کے حقیقت ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
تاہم خبر کے مندرجات سے یہ تصدیق ضرور ہو جاتی ہے کہ دی نیوز انوسٹی گیشن سیل کے تحقیقاتی رپورٹر مالکان کو خوش کرنے کے لئے قارئین اور ناظرین سے کس قدر بڑے فراڈ کر سکتے ہیں۔ اور انصار عباسی صاحب بھی بوقت ضرورت ان کے اس طرح کے فراڈ پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ پھر سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ یہ تحقیقی رپورٹر دوسرے "بہت سوں” کو خوش کرنے کے لئے کیا کیا جعلی خبریں نہیں چلاتے ہونگے؟؟ ان کی کس خبر پر یقین کیا جائے؟؟
جھوٹ سامنے آنے پر بھی کوئی معذرت اور تردید نہ کر کے انصار عباسی صاحب نے بہت مایوس کیا ہے۔ اخبار کے مالکان کو خوش کرنے کے چکر میں اپنی برسوں کی ساکھ کو مٹی ملا ڈالا۔