کیا دینی مدارس ریت کے گھروندے ہیں ؟

مولانا زاہد الراشدی اور نصرہ العلوم کے واقعہ کے بعد میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا دینی مدارس بالخصوص دیوبندی اپنی علمی صلابت فقہی اصابت فکری نجابت اور دینی حمیت کھو چکے ہیں اور اب برگد کا یہ بوڑھا درخت زمیں بوس ہونے کو ھے ۔

اس سوچ کی وجہ یہ ھے کہ ہم لوگ جو نصف صدی پہلے کے متخرجین ہیں اپنے اندر دو طرح کی غیرت اور حمیت کا حظ وافر لئے ہوئے ہیں ۔

ایک یہ کہ ہم نے جن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ان کے فہم دین میں کوئ کمی یا کجی نہیں تھی ۔

دوسرے ہمارے اندر اتنی صلاحیت پیدا کر دی گئ تھی کہ ہم پیش آمدہ مسائل یا نئ صورت حال میں لراہ راست کتاب سنت فقہ اصول فقہ اور اسلاف کی متداول اور مسلسل علمی روایت سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔اور ہمیں فہم دین کے لئے کسی نئے مجتہد مجددیا سکالر کی ضرورت نہیں ھے یہ الگ بات کہ اپنے آپ کو Updateرکھنے کے لئے معاصر افکار ونظریات سے آگاہی ضروری ھے اور اس کا وہ نمام لوگ اہتمام کرتے ہیں جو علمی شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں ۔تاہم معمولی نوعیت کے اختلاف رائے کے باوجود اس امر کا کوئ اندیشہ نہیں ہوتا تھا کہ کوئ فرد متعارف راہ سے ادھر ادھر ہو جائے ۔

لیکن

پچھلے کچھ عرصے سے میں دیکھ رہا ہوں کہ مدارس دبو بند کا امتحانی ادارہ ہر طرف سونگھتا پھر رہا ھے کہ کہیں کسی استاذ یا طالبعلم میں غامدی فکری یا مماتی اثرات تو سرایت نہیں کر گئے اور اگر کہیں ذرا سی بو محسوس کریں خواہ اس کا سبب اپنی قوت شامہ کی خرابی ہو تو فورا سنگسار کرنے کے لئے گڑھا کھودنے لگ جاتے ہیں ۔بلاشبہ یہ رد عمل ایسے افراد اور اداروں کا ہوتا ھے جو دلیل کی قوت سے محروم اور علمی بالا دستی سے تہی دامن ہو جاتے ہیں ۔تاریخ ایسے اقدامات کو محفوظ رکھتی ھے اور مسیحیت نے اپنی مذہبی عدالتوں کے ذریعے قرون وسطی میں جن اہل علم کو علمی اختلاف کی بنا پر سزا دی تھی آج تک اس پر شرمساراور معذرت کناں ھے ۔

حضور گساخی معاف جعلی عدالتیں قائم کرنے کے بجائے اپنا علمی و فکری قد و قامت بڑھائیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے