لاہور میں موسم بہارکا استقبال کرتا جَشن بہاراں کا تہواربسنت شہرکی جان تھا۔ سب سے بڑا میلہ مینار پاکستان کے پیچھے گڈی گراؤنڈ میں لگتا تھا۔ جہاں پتنگ بازی کے بڑے بڑے مقابلے،ہوا لہراتی گڈیاں، کٹی پتنگیں اور بوکاٹا کے فلک شگاف نعرے لاہوریوں کی زندہ دلی کا ثبوت تھے۔
نیشنل ہارس اینڈ کیٹل شو ہو یا میلہ چراغاں، سب ہی میلے جشن بہاراں تہوار کے آگے پانی بھرتے تھے۔ لاہور کی بسنت کے تہوار صرف لاہور ہی نہیں پوری دنیا میں اپنی مثال آپ تھے۔ لاہوریوں کی والہانہ محبت کی بات کریں تو ہمیں خود سے بڑا کوئی دیوانہ نظر نہیں آتا۔
فروری 1990ء میں بسنت کے روز ہر سو رنگ برنگی پتنگیں اڑ رہیں تھیں ، چھتوں پر موجود نوجوان بسنتی چولے پہنے اونچی آواز میں میوزک سسٹم لگا کر سجاد علی کے گانے ” بے بیا بے بی ” پر بھنگڑے کررہے تھے۔ وہیں چھوٹی سی گڈی اُڑانے کی مہم جوئی لگ بھگ ہماری جان لیتے لیتے رہ گئی، چھت سے گرےاور بے ہوش ہوگئے مگر خدا کا شکر ہے کہ کوئی گہری چوٹ نہیں آئی کیونکہ ہم زمین پر نہیں بلکہ ممانی کی گود میں گرےتھے۔ یہ تو تھا وہ قصہ ،جس میں ہم نے ڈیڑھ روپے کی پتنگ سے دیوانہ وار محبت میں چھت ہی سے چھلانگ لگا دی۔ ، اس واقعے کو ابھی ایک دن ہی گزرا تھا کہ اسکول سے گھر واپسی پر سائیکل پھینکی اور چڑھ گئے چھت پر لگے تُنکے مار نے۔ لیکن اس بار ہوا کم تھی اور پٹائی بھی خوب ہوئی۔
انیس سو ترانوے میں ذوق بدلا تو ڈیڑھ روپے کی گڈی سے پہنچ گئے سیدھا آڈھے پونے پر، جو تقریبا چھ روپے میں ملتا تھا۔ اس کا تیلا چیک کرنا، دُکاندار سے پوچھنا کہ یار یہ کہیں کَنی تو نہیں کھائے گااور وہ کہتا کہ نہیں سر آپ تسلی سے لے جائیں۔ ایسا کرنا تقریبا روز کا معمول بن گیا۔
اب آیا 95ء کا دورجب ہم نے آڈھے پونے کو خدا حافظ کہا اور جمعہ کی چھٹی پر گھر لے آئے ایک تاوا ، جو تقریبا 9 روپے میں دستیاب تھا، اس ساری کہانی میں پہلی بار ہمیں ڈور کی مضبوطی کا بھی احساس ہوا، جتنی اچھی اور مضبوط ڈور ہوگی پیچا لگانے میں کامیابی اتنی ہی یقینی ہوگی۔
آٹھویں جماعت میں پہنچے تو بسنت کے قریب ہم ڈیڑھ تاوے، دو تاوے اور پتنگ اڑانے میں مہارت حاصل کرچکے تھے۔ بسنت نائٹ منائی اور دوسرے کزنز کے ساتھ مل کر پہلی بار گھرمیں ڈیک لگایا، لائٹیں لگائیں اور ہاں باربی کیو کی کوشش بھی کی جو کافی کچی رہی۔ بارہ سفید ڈیڑھ تاوے گڈے بھی اڑائے لیکن چرخی میں لپٹی ڈور جگہ جگہ سے ٹوٹی ملی۔
یہی وہ دور تھا جب ہم نے پہلی بار کیمیکل ڈور دیکھی جو ٹوٹتی کم اور کاٹتی زیادہ تھی۔ یہی وہ منحوس وقت تھا جس نے ہمارے شوق کو گرہن لگانا شروع کیا، انہی دنوں ایک کلچ تارسے بھی متعارف ہوئےجو تندی کے ساتھ جوڑکر کٹی پتنگوں کو لپیٹنے کا کام کرتا۔ لیکن اس کلچ تار اور بجلی کی تاروں کا خوب اینٹ کتے کا بیر تھا، ذرا سا جو چھوا تو دھڑم سے زور دار دھماکہ ہوا اور بجلی گھنٹوں ناراض۔
بچپن سے جونی تک کے ان تمام ادوار میں گڈی اڑانےسے محبت کسی طور کم نہ ہوئی۔ مگر گزرتے وقت نے پتنگ بازی کا روایتی حسن ماند کر کے اسے ایک بے رحم کھیل بنا دیا ہے۔کیمیکل ڈور اور کلچ تار کا جنون کی حد تک استعمال کرنے والوں نے بے ضررتفریح کو بے رحم قاتل بنا دیاہے جو بے شما جانیں لے چکا ہے۔
گلے پر دھاتی ڈور پھرنے سمیت بے شمار دلخراش واقعات نے پنجاب حکومت کو اس بات پرمجبور کردیا کہ وہ اس سستی تفریح پر پابندی لگادے۔ آج 6 سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا۔ ہر سال جشن بہاراں تو آتا ہے مگر بسنت نہیں ہوتی۔ جو لوگ غلط ڈور اور دوسرے حادثات کے باعث جان سے گئے، ان کے اہل خانہ سے دل کی گہرائیوں سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن بہترپلاننگ اور مناسب جگہ فراہم کرکے اس تفریح کو نہ صرف محفوظ بنایا جاسکتا ہے بلکہ سیاحت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے اور یہ کام صرف حکومت ہی کر سکتی ہے۔