پہلی مثال2005:ء میں امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی، موضوع تھا ’’ابن تیمیہ اور ان کا دور‘‘، اس کانفرنس میں بین الاقوامی اسکالرز نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کئے، ان ریسرچ پیپرز میں ابن تیمیہ کے نظریات اور ان کے فتاویٰ پر سیر حاصل بحث ہوئی اور اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کی گئی کہ تیرہویں صدی کا یہ دانشور جسے اپنے زمانے میں کچھ خاص پذیرائی نہ مل سکی تھی بلکہ خدا کے متعلق بعض افکار پر اسے شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، یکایک آج دہشت گردی کی اس جنگ میں اتنا relevantکیسے ہو گیا! اس کانفرنس کا روح رواں یونیورسٹی کا پروفیسر مائیکل کک تھا جس نے اپنی ریسرچ گرانٹ کی مدد سے یہ کانفرنس منعقد کروائی، بعد ازاں ان پُرمغز مقالہ جات کو 2009ء میں آکسفورڈ نے کتابی شکل میں شائع کیا جس کی تدوین LUMS کے ایک پاکستانی پروفیسر سید نعمان الحق نے کی۔
دوسری مثال 2005:ء سے2015ء تک پاکستان میں چار سو ڈرون حملے ہوئے، ان میں ہزاروں افراد مارے گئے، ان حملوں کی بنیاد پر ملک میں ایک بیانیہ تشکیل دیا گیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ دہشت گردی دراصل ڈرون حملوں کا ردعمل ہے۔ اس دوران ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت، ان حملوں کی افادیت یا نقصان اور دیگر عوامل کے بارے میں جن مختلف اداروں اور جامعات نے تحقیق کی ان میں اسٹینفرڈ یونیورسٹی، نیو امریکہ فاؤنڈیشن، ایمنسٹی انٹرنیشنل، محکمہ برائے تحقیق صحافت لندن اور آکسفورڈ ریسرچ گروپ وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان میں یہ کام اکا دکا صحافیوں نے اپنے طور پر انجام دیا اور ایک آدھ این جی او نے بھی اس بارے میں کچھ تحقیق کی مگر کسی پاکستانی یونیورسٹی میں اس بارے میں کوئی ٹھوس تحقیقی مقالہ نہیں لکھا گیا۔
تیسری مثال2003:ء سے31 جنوری2016 ء تک پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں بیس ہزار نو سو پچیس شہری جاں بحق ہوئے، چھ ہزار چار سو آٹھ سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے جبکہ بتیس ہزار پانچ سو چوہتر شدت پسند ہلاک ہوئے، کل ملا کر یہ تعداد انسٹھ ہزار نو سو سات بنتی ہے۔ یہ اعداد و شمار ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل نامی ایک ویب سائٹ روزانہ کی بنیاد پر مرتب کرتی ہے اور اس کا ذریعہ حکومتی اور میڈیا رپورٹس ہیں۔ اسی ویب سائٹ میں ان اعداد و شمار کی مزید تفصیل بھی موجود ہے جیسے یہ کہ ان واقعات میں چار سو انتیس خودکش دھماکے بھی شامل ہیں جن میں کل چھ ہزار چار سو اکسٹھ افراد جاں بحق جبکہ تیرہ ہزار تین سو چالیس زخمی ہوئے۔ اس ویب سائٹ میں جنوبی ایشیا کے ممالک بشمول بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا مکمل ڈیٹا بیس موجود ہے، یہ ویب سائٹ بھارت کی ایک این جی او چلاتی ہے۔
ان تین مثالوں سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ پہلی، ہمارے ملک میں تحقیق کا کلچر نہیں ہے، جن لوگوں کا کام ریسرچ کرنا ہے انہیں زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ کسی طرح ان کا مقالہ کسی جرنل میں چھپ جائے تاکہ ان کا مطلوبہ اسکور پورا ہو جائے چاہے یہ مقالہ ’’ایان علی اور پاکستان میں منی لانڈرنگ کا احیا‘‘ کے موضوع پر ہی کیوں نہ ہو یا پھر ان کی پی ایچ ڈی مکمل ہو جائے تاکہ ان کی تنخواہ بڑھ جائے چاہے اس ڈاکٹریٹ کے تھیسز کو بعد میں یونیورسٹی ردی میں تول کر ہی کیوں نہ بیچ دے۔ جس ملک میں لوگ اس بات پر یقین کر لیں کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں نہیں مارا گیا تھا اور یہ بات ایڈورڈ اسنوڈن کے ایک جعلی انٹرویو سے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے جو اس نے کبھی دیا ہی نہیں، اس سے ملک میں تحقیق کی روایت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ دوسری بات، ہم دہشت گردی کے خلاف ملکی سلامتی کی جنگ لڑ رہے ہیں، اس مسئلے سے بڑا اس وقت کوئی دوسرا مسئلہ نہیں مگر حال ہمارا یہ ہے کہ ڈرون حملوں سے لے کر دھماکوں کے اعداد و شمار تک ہم غیر ملکی اداروں کی معلومات اور تحقیق پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہمارے اپنے متعلقہ ادارے دھنیا پی کر سو رہے ہیں۔ اور تیسری بات، پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی برپا ہے اور ساٹھ ہزار ہلاکتیں ہو چکی ہیں مگر ملک کے طول و عرض میں پھیلی درجنوں جامعات میں سے کسی ایک کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ اس موضوع پر کوئی ٹھوس تحقیق ہی شائع کروا لے۔ خودساختہ پروجیکشن میں مشغول یہ جامعات اور ان کے وی سی صاحبان جن کے بلند بانگ دعوے ختم ہونے میں ہی نہیں آتے، ایک تحقیق ایسی نہیں کروا سکے جو مغربی دنیا میں حوالے کے طور پر دی جاتی ہو۔ ابھی لاہور میں کتاب میلہ اختتام کو پہنچا، کسی یونیورسٹی نے زحمت گوارا نہیں کی کہ اپنے پریس سے شائع ہونے والی کتابوں کا اسٹال وہاں لگا دیا جائے، یہ اور بات ہے کہ فائدہ اس کا بھی کوئی نہیں ہونا تھا۔ یونیورسٹیوں کے یہ وائس چانسلر حضرات دن رات اپنے ہی گن گاتے ہیں اور دعوے کرتے ہیں کہ انہوں نے تحقیق کا بجٹ اتنے کروڑ سے اتنے کروڑ بڑھا دیا، اتنے ہزار پی ایچ ڈی پیدا کردیئے اور امپیکٹ جرنلز میں شائع ہونے والے مقالوں کی تعداد میں سو گنا اضافہ کر دیا مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ قبلہ جو تحقیق آپ نے کروائی، یا جو ایجاد آپ کے دور میں ہوئی یا جو پی ایچ ڈی کی ڈگری آپ نے جاری کی اس کی دنیا میں کیا اوقات ہے! اس وقت امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پانچ ہزار دو سو انتیس پاکستانی طالب علم زیر تعلیم ہیں جبکہ نیپال کے طلبا کی تعداد گیارہ ہزار سے زیادہ ہے۔ پروفیسر نعمان نے جو کتاب مرتب کی اس میں ایک بھی حوالہ کسی پاکستانی یونیورسٹی کے مقالے کا نہیں جبکہ یہ کتاب اس بنیادی مسئلے کا احاطہ کرتی ہے جس کی وجہ سے ہم روز اپنے فوجی جوانوں اور بے گناہ شہریوں کی لاشیں اٹھاتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں محقق نہیں، بے شمار نام ایسے ہیں جن کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر علمیت سے انکار ممکن نہیں، مثلا ً علامہ جاوید غامدی، محترم احمد جاوید، طارق رحمان، محمد وسیم، اکبر زیدی، رسول بخش رئیس، حسین حقانی، پروفیسر حسن عسکری رضوی وغیرہ۔ حسین حقانی کو ہی لے لیں، ان کی دو کتابیں Magnificent Delusions اور Pakistan between Mosque and Militaryدنیا بھر کی درجنوں جامعات میں کسی نہ کسی حوالے سے نصاب میں شامل ہیں، ان کےنقطہ نظر سے اختلاف کا پورا حق ہمیں حاصل ہے مگر حسین حقانی کا قد بطور محقق نہیں گھٹایا جا سکتا، ان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ٹھوس حوالوں اور مستند اعداد و شمار سے بات کرتے ہیں، مثلاً جب وہ یہ کہتے ہیں کہ 1947 میں مغربی پاکستان کی شرح خواندگی سولہ فیصد جبکہ بھارت کی اٹھارہ فیصد تھی۔
اور اب یہ فرق بڑھ کر بیس فیصد ہو گیا ہے تو اس میں برا منانے کی بجائے ان عوامل کا جائزہ لینا ضروری ہے جس کی وجہ سے یہ ہوا۔ بھارت سے متعلق ان کے نظریات سے مجھے بھی اختلاف ہے مگر دلیل کا جواب دلیل سے دیا جانا چاہیے نہ کہ گالی سے۔ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے، ہمارے دشمن اب تبدیل ہو چکے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ اب دوست بھی تبدیل کر لئے جائیں۔ پاکستان کو دانشوروں اور تحقیقی ذہن والوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس جنگ میں ریاست کے لئے کوئی بیانیہ تشکیل دے سکیں، یونیورسٹیوں کے وی سی صاحبان کو تو اپنی پروجیکشن سے فرصت نہیں سو یہ کام افراد کو ذاتی حیثیت میں کرنا پڑے گا، ریاست اگر انہیں تھپکی ہی دیتی رہے تو بہت ہے!
بشکریہ روزنامہ جنگ