فاطمہ ثریا بجیا کی زندگی کے کچھ اہم راز

یہ دسمبر 2010 کی بات ہے، رات کے دس بجے بجیا اپنے کمرے میں ہیٹر کے آگے بیٹھی اخبارات کے تراشے سنبھال رہی تھیں، میں کامن روم میں ٹی وی کے آگے سکون سے صوفے پہ دراز تھی، گھر کی گھنٹی بجی، بائیس سال سے بجیا کے گھر میں براجمان شیف عبدالوہاب نے مجھے اطلاع دی "عفت باجی، بجیا کو بولے کوئی صاب آیا، کہتا ہے نوکری کا معاملہ ہے” ، میں نے گھڑی دیکھی لاحول پڑھا اور بجیا کو بتانے گئی، بجیا بہت انہماک سے اخبارات تراش رہی تھیں، مخل ہونا مناسب نہ سمجھا، میں نے مرکزی دروازے پر جاکر گھر آنے والے صاحب کو ٹپ دی کہ بجیا مصروف ہیں کل علی الصبح آجائیں ملاقات بھی ہوجائے گی کام بھی… بحث جاری تھی کہ پیچھے سے بجیا آگئیں "آجاو بیٹا اندر آجاو”

موصوف کوئی سرکاری ملازم تھے، شوکاز ملا ہوا تھا نوکری کے لالے پڑے تو بجیا کے گھر راتوں رات آن دھمکے، بجیا ان صاحب بہادر کو نہیں جانتی تھیں، مدعا سنا، اونی شال کندھے پہ ڈالی اور آواز لگائی "عبدالوہاب بی بی کے لیے الماری سے شال نکال لاو اور گاڑی نکالو گورنر ہاوس جانا ہے “ اب یہ بی بی بیچاری منہ تکے، ارے بجیا رات کے ساڑھے دس ہونے کو آئے ہیں… لاکھ عبدالوہاب منمنایا، اس بی بی نےبھی سمجھایا، اگلے چند منٹوں میں ہم گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے سرکاری گھر.. کام کیسے نہ بنتا.

بلاگر فاطمہ ثریا بجیا کے ساتھ
بلاگر فاطمہ ثریا بجیا کے ساتھ

اس جیسے سینکڑوں نہیں ہزاروں افراد ایسے ہیں جنہیں بجیا کے دم سے امید ملی، نوکری ملی، کیریر ملا. بجیا کا گھر دن بھر کسی سرکاری دفتر کا منظر پیش کرتا تھا جہاں سائلین کا تانتا بندھا رہتا. کسی کو نوکری کی تلاش کسی کو ترقی کی چاہ، کوئی سیٹھ کے ظلم سے تنگ تو کوئی بیٹی کے رشتے یا جہیز کے لیے پریشان..

وہ سب کی بجیا تھیں ، مگر میری تو ماں تھیں. وقت کی درویش، اللہ کی ولی، حد درجہ سادہ اور بلا کی درد مند.

وہ ڈرامے لکھتی تھیں مگر ڈرامہ دیکھنے والے کو شاید معلوم نہ تھا اسکرپٹ کے ایک اک حرف کے پیچھے بجیا کی عرق ریزی ہے، اردو کے تاریخی محاورے، چٹکلے، پہیلیاں اور شاعری کیا نہیں تھا جو بجیا کے زیر قلم نہ آیا ہو.

ڈرامے کی ہیروئین کا جو عکس بجیا نے سوچا ہوتا تھا، عین وہی منظر ٹیلیویژن پر پیش کرنے کی خاطر بجیا سلائی مشین پی ٹی وی اسٹوڈیو لے جاتیں، بوقت ضرورت سیا اور پہنا دیا.

جاپانی ادب کے لیے بجیا کا کام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں پاکستان میں جاپانی ادب اور تھیٹر کو عام کرنے پر بجیا کو جاپانی بادشاہ نے امپیریل آنر سے نوازا.

بجیا کے کارنامے میں لکھتی جاونگی اور آپ پڑھتے جائیں گے، اسی لئے بجیا کی زندگی کی کہانی میں پہلے ہی رقم کرچکی، بس اک بات ہے جو شاید کتاب میں نہ لکھ سکی، اب لکھ رہی ہوں،

بجیا نے جس ہمت و بہادری سے زندگی گزاری وہ سوچنا بھی ممکن نہیں، 2014 میں انہیں فالج کا اٹیک ہوا، اس سے قبل تک بجیا اپنی ضعیفی میں بھی اپنے کپڑے خود دھولیتیں، واش روم تیزاب سے دھویا اور کمرے کی صفائی کرڈالی، میں جب رمضان میں بھوک سے نڈھال پڑی ہوتی، تو کچن سے آوازیں آتیں، میں بجیا کو منع کرنے جاتی تو کہتیں "ارے بس بن گیا افطار تمھارے بہانے میں بھی چکھ لونگی”

بجیا کی تقسیم پاکستان کے فوری بعد شادی ہوئی اور ان کی دو بیٹیاں پیدائش کے بعد فوت ہوگئیں، بجیا انہیں بھی یاد کرتی تھیں اور کہتی جاتیں”دیکھو اللہ نے مجھے کتنے سارے بیٹے بیٹیاں عطا کردیئے ” واقعی بجیا کتنا درست کہا آج آپ کی یہ بیٹی آپ کے جانے پہ اتنی ہی سوگوار ہے جیسا اپنی ماں کو رخصت کرنے کا حق ہے.


بجیا کتاب کی تقریب رونمائی پر مبنی رپورٹ

عفت حسن رضوی، نجی نیوز چینل 92 نیوز میں رپورٹر ہیں اور سپریم کورٹ کی کوریج کرتی ہیں، اس سے پہلے وہ جیو نیوز کراچی اور اسلام آباد میں بطور رپورٹر کام کرتی رہیں ۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی کا بیشتر حصہ فاطمہ ثریا بجیا کے ساتھ گذارا ،وہ برصغیر کی عظیم ڈرامہ نویس فاطمہ ثریا بجیا کی سوانح نگار ہیں اور انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکہ کی فیلو ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے