ہمیں ویلنٹائن ڈے نہیں منانا

چند روز قبل ایک ٹی وی چینل پر خبر نشر ہوئی کہ اسلام آباد انتظامیہ نے وفاقی دارالحکومت میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس سلسلے میں تمام تقریبات منسوخ کرنے کی بھی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ تصدیق کےلیے میں نے خود اسلام آباد انتظامیہ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ 14 فروری کے روز کسی بھی ایسی تقریب کےلیے اجازت نامہ نہیں جاری کیا جائے گا جس کا مقصد ویلنٹائن ڈے منانا ہو۔ اس روز میوزک شوز کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔

آج دوپہر جیونیوز نے بریکنگ نیوزدی کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانے کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے۔ وزیر داخلہ اوراسلام آباد انتظامیہ کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔ صوبائی حکومتوں اور خصوصاً بڑے شہروں کی ضلعی انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس غیر اسلامی اور بیہودہ تہوار کو پاکستان میں پنپنے سے روکیں۔ ویسے تو اس سلسلے میں میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن ہمارے میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ وہ تو ہمارے معاشرتی اور مذہبی اقدار کا سب سے بڑا دشمن بن بیٹھا ہے۔ شکر ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ اور وزیر داخلہ کی میڈیا نے ایسی تیسی نہیں کی ورنہ ایسے روک ٹوک کو تو ہمارا میڈیا شدت پسندی کے ساتھ جوڑتے ہوئے اسے انسانی حقوق اور آزادی رائے کے خلاف گردانتے ہوئے مہم چلانے میں دیر نہیں کرتا۔

یہ حقیقت ہے کہ ویلنٹائن ڈے جیسی بیہودگی کو پاکستان میں متعارف کروانے والا ہی ہمارا میڈیا تھا۔ ویسے تو آج بھی پاکستان میں 99 فیصد سے بھی زیادہ لوگ ایسی بے شرمی اور بے غیرتی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن میڈیا اس دن کو ایسے مناتا ہے جیسے یہ کوئی ہمارا اپنا رواج ہو۔بے چارے نیوز کاسٹرز کو جو لکھ کر دے دیا جاتا ہے وہ غریب بغیر سوچے سمجھے پڑھ دیتے ہیں۔ ورنہ پورے پاکستان میں کوئی بیس چالیس ہی ایسے والدین کے انٹرویوز ہی چلا دیں جو یہ خواہش رکھتے ہوں کہ اس روز ان کی بیٹی، بہو، بہن یا ماں کو کوئی غیر پھول پیش کر کے محبت کا اظہار کرے۔ چلیں ایسے ہی بیس چالیس افراد کے انٹرویوز پیش کر دیں جو اپنے بیٹوں، بھائیوں سے یہ توقع رکھتے ہوں کہ وہ Saint Valentine کی یاد میں کسی غیر عورت سے رومانس کریں۔ یقین کر لیںایسا کوئی سیگمنٹ کسی چینل پر نہیں چلے گا کیوں کہ ایسی بے شرمی اور بے غیرتی کا عمومی طور پر پاکستان کی عوام سے کوئی تعلق نہیں۔

ہاں میڈیا کی یہ کوشش ضرور ہے کہ لوگوں میں شرم و حیا کو ختم کر کے مغرب کی اُس تہذیب کو یہاں رواج دیا جائے جس نے انسان کو جانوروں سے بھی بدتر کر دیا ہے۔ مغرب کے فری سیکس معاشرے میں غیر شادی شدہ افراد کا ساتھ رہنا، ناجائز اولاد کا پیدا ہونا، مرد کا مرد اور عورت کا عورت کے ساتھ ہم جنس پرستی کرنا یہ وہ خرابیاں ہیں جس کا تعلق اُس فحاشی و عریانیت سے ہے جس کوہمارا میڈیا روشن خیالی اور ترقی کے نام پر خوب فروغ دے رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ میڈیا میں سب کام کرنے والوں کی یہی سوچ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی طرح میڈیا کے اندر بھی ایسے معاملات سے اختلاف رکھنے والی اکثریت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ مجھے تو یہ بھی یقین ہے کہ دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کو متنازع اور فحش انداز میں پیش کرنے والے میڈیا کے لوگ اپنی بہنوں بیٹیوں کےلیے ایسا پسند نہیں کریں گے۔ وہ یہ بھی نہیں چاہیں گے کہ ُان کے گھر کی عورت کو کوئی محلہ دار یا کوئی اور غیر ویلنٹائن ڈے کے دن پھول پیش کر کے محبت کا اظہار کرے۔

پاکستان کے روشن خیالوں سے پوچھیں شاید ہی کوئی اُن میں ہو جو اپنی بیٹی بہن کا کسی غیر مرد سے ناجائز تعلق اس بنا پر برداشت کرے کہ ایسا کرنا اُس کا ذاتی فعل ہے اور اس سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ لیکن نجانے کیوں پھر بھی پاکستان کی چھوٹی سی اقلیت مغربی تہذیب کو ہم پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ مغربی تہذیب ہو یا انڈین کلچر، گلوبلائزیشن کے نام پر ہمیں اپنے اُن معاشرتی اور مذہبی اقدار کو تباہی سے بچانا ہے جو ہمیں دوسروں سے منفرد کرتے ہیں اور جس کے بارے میں اب مغرب صرف خواہش ہی کر سکتا ہے۔ اس کےلیے خاموش اکثریت چاہے وہ عوام میں موجود ہو، میڈیا، پارلیمنٹ یا دوسرے اداروں میں انہیں اپنی آواز بلند کرنی ہوگی، انہیں فحاشی و عریانیت کے ہر روپ، ہر راستہ کو اپنے پرامن احتجاج سے، اپنی آواز بلند کر کے روکنا ہوگا۔ سب کہہ دیںہمیں ویلنٹائن ڈے نہیں منانا۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے