ڈاکٹر احسن اختر ناز بھی چلے گئے

ہمارے بہت محترم دوست اور پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کے سابق سربراہ ڈاکٹر احسن اختر ناز انتقال کر گئے ہیں۔ وہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔
ڈاکٹر ناز ہمارے فورم سی این اے کے مستقل ممبر تھے، ہفتہ وار نشستوں میں ان سے ملاقات ہوتی رہتی، نہایت شگفتہ مزاج انسان تھے، ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کرتے، نشست کے بعد باہر کھڑے ہو کر گپ شپ ہوتی رہتی۔ ڈاکٹر احسن اختر ناز شعبہ ابلاغیات کے سابق سربراہ ڈاکٹر مغیت الدین شیخ کے قریبی ساتھی تھے، ڈاکٹر صاحب جب ڈین بنے تو ڈاکٹر ناز شعبہ ابلاغیات کے ڈائریکٹر ہوگئے، ڈاکٹر مغیث بعد میں ریٹائر ہوگئے اور پھر سپیریر یونیورسٹی میں چلے گئے ، آج کل وہ یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ہیں۔

ڈاکٹر مغیث شیخ اور پنجاب یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے درمیان مخاصمت کا تعلق تھا۔ شائد ڈاکٹر مغیث کی ذہانت اور ان کی شخصیت سے ڈاکٹر مجاہد کامران خوفزدہ رہتے کیونکہ ڈاکٹر مغیث وائس چانسلری کے مضبوط امیدوار تھے، ڈاکٹر مجاہد کامران جو وائس چانسلر کے طور پر اپنی مدت دو بار مکمل کر چکے ہیں اور آج کل سرتوڑ کوشش کے بعد ایک عارضی ایکسٹینشن کے سہارے وقت گزاررہے ہیں، جب انہوں نے پہلی بار ایکسٹینشن لی تو وی سی بننے کے لئے ڈاکٹر مغیث بھی ایک امیدوار تھے اور سچ تو یہ ہے کہ اگر میرٹ پر فیصلہ کیا جاتا تو ڈاکٹر مغیث ہی کا حق بنتا تھا،یہ اور بات کہ ڈاکٹر مجاہد کامران نے اپنے جوڑتوڑ، تعلقات ، مسلم لیگی حلقوں میں اپنے اثرورسوخ کو ااستعمال کر کے ، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ باقاعدہ لابنگ کر کے ایکسٹینشن حاصل کی ۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے یہ ایکسٹینشن دلوانے میں میڈیا کے بعض سینئر صاحبان نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

ڈاکٹرناز تب ہی سے وائس چانسلر مجاہد کامران کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ ڈاکٹر ناز کے خلاف مسلسل کمپین جاری رہی ، اخر ایک سراسر بے بنیاداور انتہائی گھٹیا الزام کی وجہ سے ان کے خلاف انکوائری شروع کی گئی اور آخرکار انہیں شعبے کی ڈائریکٹرشپ سے ہٹنا پڑا۔ پچھلے تین چار برس ڈاکٹر ناز کے لئے اذئیت ناک بنا دئیے گئے، وہ اس قدر تنائو کا شکار رہے کہ ان کی شوگر مسلسل ہائی رہتی، آخر کار مسئلہ اس قدر بگڑا کہ ڈاکٹر ناز کی ٹانگ پنڈلی سے کاٹنی پڑ گئی۔
جس کسی نے یہ خبر سنی ،وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ کوئی مان نہیں سکتا تھا کہ ڈاکٹڑ ناز جیسا شگفتہ مزاج زندہ دل انسان اور ٹینشن سے ان کی شوگر اس قدر خطرناک صورت اختیار کر جائے۔ مگر ایسا ہوا اور میرے سمیت بہت سے لوگ یہ خٰیال کرتے تھے کہ اس کی تمام تر ذمہ داری ڈاکٹر مجاہد کامران کے سرجاتی ہے۔ انہوں نے ایک نہایت شریف اور بے ضرر آدمی کے خلاف ایسی کمپین چلائی، سیاست کا نشانہ بنایا کہ وہ بیچارہ اپنی صحت ہی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پریس کلب کے الیکشن کے موقعہ پر ایک دوست بتا رہا تھا کہ ڈاکٹر ناز نے دوبارہ سے کلاس میں جانا شروع کر دیا ہے، وہ وہیل چئیر پر جایا کرتے تھے۔ کہنے والے یہ بتاتے رہے کہ کہ ڈاکٹر ناز نہیں اب ان کا سایہ ہی رہ گیا ہے۔ وہ شخص سیاست کی نذر بن کر رخصت ہوچکا، جس کے قہقتے پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات میں گونجا کرتے تھے، سی این اے کی محفلیں جس سے مہکا کرتی تھیں۔ افسوس کہ آج ان کا سایہ بھی رخصت ہوگیا۔

ابھی ایک دوست نے اطلاع دی کہ وہ چند دنوں سے علیل تھے، شیخ زید ہسپتال میں زیر علاج تھے، آج زندگی موت کی کشمکش سے آزاد ہوگئے۔ اب وہ وہاں چلے گئے ، جہاں انہیں کوئی وی سی تنگ نہیں کر سکتا، ان کے شعبے کا کوئی یا شعبے کی کوئی مخالف پروفیسر ان کے خلاف سازشیں نہیں کر سکتی ۔ رب کریم ان پر اپنا کرم فرمائے، ان کی خطائوں سے صرف نظر کرے اور نہایت آسانی کا معاملہ فرمائے۔ آمین۔

اس مالک حقیقی کے دربار میں ہر ایک کو حاضر ہونا ہے، ہر ایک کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے، وہی جانتا ہے کہ کون خطاکار ہے ، کون درست، مگر ہم اس کی گواہی دیں گے کہ ہم نے ڈاکٹر احسن اختر ناز کونہایت بھلا انسان پایا۔ سیاست کی خباثتوں سے پاک، نہایت شریف النفس ، بااخلاق اور ایسا خاندانی شخص جو اپنے دشمنوں سے بھی مروت اور بھلائی کا سلوک کرے۔ افسوس کہ فروری کی گیارہ تاریخ اس شریف آدمی کو ہم سے چھین کر لے گئی ۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ پنجاب یونیورسٹی کے ’’بڑے گھر‘‘میں مقیم شخص پر یہ خبر سن کر کیا بیتی ہوگی؟ اس کے دل میں ایک لمحے کو خیال تو آیا ہوگا کہ یہ بے وقت موت صرف اس کی سازشوں، ٹانگ کھینچنے کی روش اور گھٹیا پن کے باعث ہوئی۔ اللہ سب پر اپنا کرم کرے اور راہ راست عطا فرمائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے