جے ایس بنک اور میڈیا برائے فروخت

پاکستان میں بسنے والے اٹھانوے فیصد لوگ شاید میڈیا کے اصل چہرے سے ناواقف ہیں ، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ میڈیا میں جو دکھایا جاتا ہے جو بتایا جاتا ہے جو سنایا جاتا ہے جو لکھا جاتا ہے جو جاری کیا جاتا ہے جو نشر کیا جاتا ہے وہ صرف وہ ہی دیکھ ، سن اور پڑھ سکتے ہیں ، لیکن حقیقت کیا ہے ؟ حقیقت بہت بھیانک ہے صحافت میں دس سال کا تجربے ہونے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تحقیقاتی صحافت بنیادی طور پر بلیک میلنگ ہے ، کتابوں میں پڑھا جانے والا نصاب اور ہمارے ملک میں ہونے والی صحافت کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے کوئی ربط نہیں ہے کوئی سلسلہ نہیں ہے ،

کچھ مثالیں اور کچھ حقائق یہاں پر بتانا بہت ضروری ہے ، قومی احتساب بیورو اس وقت جن ڈیڑھ سو بڑے میگا کرپشن سکینڈلوں کی تحقیقات کر رہا ہے ان میں سے ایک بڑا سکینڈل جے ایس گروپ کا ہے ، اس گروپ کا حال یہ ہے کہ ان کے نیب میں دو بڑے کیس چل رہے ہیں ایک جے ایس آئی ایل کی این آئی سی ایل کے ساتھ دو ارب روپے کی غیر قانونی سرمایہ کاری اور دوسرا بڑا کیس ملک کے سٹاک ایکسچنیج کی تاریخ کا سب سے بڑا میگا کرپشن سکینڈل ایزگارڈ نائن ، جس میں دو ہزار سات سے دو ہزار نو تک ملک کے بڑے سٹاک ایکسچنیج کو جہانگیر صدیقی نے اپنی انگلیوں پر نچایا اور اربوں روپے کمائے ، کبھی مارکیٹ کو کریش کرتا تو کبھی اوپر لے جاتا

یہ دونوں کیس کی نیب تحقیقات کر رہا ہے اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جو سپریم کورٹ میں نیب نے فہرست جمع کرائی اس میں بھی ان کی تفصیلات درج ہیں اور نیب کی ویب سائیٹ پر بھی یہ تمام تفصیلات درج ہیں اس کے علاوہ نیب کے درجنوں لیٹر جو نیشنل بنک ، جے ایس گروپ اور دیگر اداروں کو لکھے گئے نیب کی تحقیقاتی رپورٹس ، نیب کے دستاویزات اور ایس ای سی پی کے دستاویزات اور انکوائریوں میں یہ میگا کرپشن کی تصدیق ہو چکی ہے ، یہی جے ایس گروپ کا ایک اور سکینڈل اوگرا کرپشن سکینڈل بھی ہے جس میں سپرنٹ انرجی کو غیر قانونی لائسنس دیئے گئے اس کیس میں کریمنل ایف آئی آرز درج ہیں ، اسی طرح جہانگیر صدیقی کے بیٹے علی جہانگیر کو تینتالیس کروڑ روپے کے غیر قانونی بونس کا کیس بھی سامنے آ چکا ہے

اب جب نیب کے موجودہ چیئرمین نے اس گروپ کے خلاف تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا ، نیشنل بنک کو ابھی ستائیس جنوری کو لیٹر لکھا گیا کہ جے ایس گروپ کی تمام سرمایہ کاری اور دیگر دستاویزات فوری طور پر نیب کو فراہم کریں دوسری طرف نیب کی طرف سے تفتیش کے لیے جے ایس گروپ کے لوگوں کو طلب کیا جانے لگا تو خبروں سے بچنے کے لیے ، بریکنگ نیوز سے بچنے کے لیے ، نیب کی تحقیقات میں اثر انداز ہونے کے لیے ملک کے ہر ٹی وی چینل ، ہر اخبار ، ہر ریڈیو ، ہر نیوز ویب سائیٹ اور ہر طرف جے ایس بنک ایک قدم آگے کے اشتہارات دیکھنے سننے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں ، یہ اشتہارات جب جے ایس بنک لانچ ہوا تھا تب بھی اتنے جاری نہیں کیے گئے تھے تو اب ایک دم کیا ہو گیا

اس صورتحال میں ہر اخبار میں ہر ٹی وی چینل پر نیب کے بیٹ رپورٹرز نے جے ایس گروپ کے حوالے سے جب خبریں فائل کیں تو کوئی خبر نہ ٹی وی پر چلی نہ ہی اخبار میں شائع ہو سکی ، کیسے ہوتی میڈیا والے کروڑوں روپے کے اشتہارات سے پیسہ کمانے میں لگے ہیں اور ایک عام آدمی جو جے ایس بنک کے ساتھ کاروبار کر رہا ہے جو اس کے شیئر خرید رہا ہے اس کو اصل حقائق کا پتہ ہی نہیں کہ جب نیب اس کی تحقیقات مکمل کرے گا یا نیب جب جے ایس کے مالکان کو گرفتار کرے گا تو ان عام لوگوں کو شیئر ہولڈرز کو کتنا نقصان ہو گا اور کیسے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے ایک ملک کے کرپٹ ترین افراد کو بچایا جا رہا ہے ٹی وی چینل پر چلنے والے اشتہارات اس گروپ کے محافظ بنے ہوئے ہیں یہ کیسی صحافت ہو رہی ہے یہ کیسا کاروبار ہے عوام کو آگاہ کرنے والے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں

ان حالات میں اسلام آباد کے ایک معروف تحقیقاتی رپورٹر سہیل اقبال بھٹی جو ڈان نیوز میں ہیں انہوں نےجرات کی اور اپنے ادارے کے تمام اعلی حکام کو مطمئن کیا کہ یہ کرپٹ گروپ ہے اس کی خبر چلنی چاہیے تو ڈان نیوز کو یہ کریڈت جاتا ہے کہ اس نے خبر چلائی لیکن پھر کیا ہوا ؟ رپورٹر کو لیگل نوٹس اور دھمکی آمیز لیگل نوٹس بھیج دیا گیا تاکہ اگر خبر ایک دفعہ چل گئی ہے تو ڈان کو دیکھا دیکھی کوئی اور چینل نہ چلا دے کوئی اور اخبار نہ چلا دے بس اس چکر میں لیگل نوٹس بھیج کر رپورٹر اور ادارے کو دبانے کی کوشش کی گئی ، یہ ہمارے ملک کے کرپٹ ترین افراد کا حال ہے اگر ان کی کرپشن کو بے نقاب کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو خود ہی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑیں گے

دوسری طرف راقم کے ساتھ بھی ایک واقعہ پیش آیا ، معروف ٹی وی اینکر اور تحقیقاتی رپورٹر اسد کھرل نے جے ایس گروپ کے خلاف کچھ دستاویزات ٹی وی پر دکھائے اور پروگرام کیا ، اس پروگرام کا ٹوئٹر اکائونٹ ہے جس پر انہوں نے پروگرام کے فیڈ بیک کے لیے کچھ دستاویزات جاری کیے اس پر جب میں نے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کیا تو کچھ ہی دیر بعد مجھے دفتر سے فون آیا اور میرے باس نے مجھے کہا کہ آپ نے کوئی ٹویٹ کیا ہے اس کو فوری طور پر ختم کریں میں نے کہا ابھی کرتا ہوں تو مجھے کہا گیا کہ اسی وقت ان کے سامنے کروں ، انہوں نے وجہ بتائی کہ ٹویٹر پر آپ کی پروفائل میں ادارے کا نام ہے جس میں آپ کام کر رہے ہیں اس لیے ٹویٹ سے ادارے کو ملنے والے اشتہارات پر فرق پڑ سکتا ہے اس کے بعد میں نے ٹویٹر پر اپنی پروفائل تبدیل کر دی
کیا اس طرح دھمکا کر دبا کر کرپشن کرنے والوں کو روکا جا سکتا ہے ؟ کیا کرپشن کے خلاف نیب کی تحقیقات شفاف ہوں گی ؟ یہ لوگ ایک ٹویٹ برداشت نہیں کر سکتے یہ کیسے خبریں چلنے دیں گے کیا صحافیوں کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ عوام کو آگاہ کریں کہ کون کرپٹ ہے اس کےسات کاروبار نہ کریں اسی طرح کے مشکوک اور کرپٹ اداروں کے بعد میں مضاربہ سکینڈل اور ڈبل شاہ سکینڈل سامنے آتے ہین اور عوام اپنی رقوم کے لیے در در کی ٹوکریں کھاتے ہیں

صرف یہ ہی نہیں اور بھی کئی مثالیں ہیں رپورٹرز کو اداروں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ان اداروں کے خلاف خبریں لے کر آئیں جب خبریں آتی ہیں تو اشتہار آ جاتے ہیں پھر رپورٹر کو کہا جاتا ہے کہ اب خبریں نہ دو اشتہار ملنا شروع ہو گئے ہیں اسی طرح ہر دوسرا کرپٹ شخص یا ہر دوسرا کرپٹ ادارہ میڈیا کو مختلف ذرائع سے رسائی حاصل کر لیتا ہے پھر خبر نہ چل سکتی ہے نہ چھپ سکتی ہے ، ملک کے سب سے گندے طبقے یہ جو ہر گلی محلے میں عطائی ڈاکٹر ، نیم حکیم ، کلینک ، روزگار سینٹر ، پیر ، تعویز گنڈے اور یہ سب کچھ چل رہا ہے اخباروں اور چینلوں پر اشتہارات دیے کر چل رہا ہے ان کے خلاف کوئی خبر نہیں لگاتا کہ یہ کس طرح سادہ لوح افراد کو لوٹنے میں لگے ہیں اس مافیا کی طرف سے اخباروں میں روزانہ ہزاروں روپے کے اشتہارات دیے جاتے ہیں اور ہماری صحافت کا منہ بند

بہارہ کہو میں پہاڑوں کو کاٹ کر درختوں اور ماحولیات کو تباہ کر کے ملک ریاض آف بحریہ ٹائون سوسائٹی بنا رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ، میڈیا بھی خاموش اب بحریہ ٹائون کے اشتہار چلائے یا اس کے خلاف خبریں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے