ادب روٹھ رہا ہے

سُہانے وقتوں میں دادی اماں سونے سے پہلے بچوں کو لوک کہانیاں ،اسلامی
واقعات اور لوک گیت سنایا کرتی تھیں، بچوں کی یہ عادت اتنی پختہ تھی کہ
یہ سب سنے بغیر سوتے ہی نہیں تھے ۔بچہ جب پڑھنے لکھنے لگتا تو اپنی
تعلیمی مصروفیات سے فراغت کے بعد دن میں کچھ وقت کے لئے کوئی ناول،ڈائجسٹ
یا کتاب لے کر اس کا مطالعہ کرتا،یہ کام باقاعدگی سے دل لگی کے لئے کیا
جاتا جس سے بچے اپنی تاریخ،روایات اور ثقافت سے بہرہ ور رہتے . اس سے بچوں
میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتیں ،بہترذہنی نشو و نما ہوتی ۔ہر بچے کے پاس
مختلف قسم کا ادبی مواد موجود رہتا اور دوستوں میں اس کا تبادلہ ہوتا۔

جب یہی بچے بڑے ہوتے تو ان میں تاریخ،ثقافت اور اسلامی کتب پڑھنے کا شوق
موجود ہوتا وہ ان کتب کا مطالعہ کرتے ۔اگر گھر والے کچھ سختی بھی کرتے تب
بھی چھپ چھپا کر اور جیب خرچ سے پیسے بچا کر مختلف ادبی و تاریخی کتب
خرید کر پڑھتے اس کے سبب بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوتیں ۔

پھر یوں
ہوا کہ ڈائجسٹ،ناولوں اور کتب کی جگہ فلمزاورسی ڈیز نے لے لی ،اب بچوں
میں کتب اور ناولوں کی بجائے سی ڈیز اور گانوں کا تبادلہ ہونے لگا،بچوں
کی طبیعت میں منفی اثرات ظاہر ہونے لگے،نہ کھانے کا پتا نہ پینے کا
ہوش،والدین کوئی کام بتاتے تو سنی ان سنی کر دی جاتی کیونکہ کتاب پڑھنے
کے دوران کھانے پینے کا وقت آجاتا ہے یا کوئی اور کام کرنے کی گنجائش
ہوتی ہے مگر فلم دیکھنے کے دوران اس کی قطعی گنجائش نہیں ہوتی یہاں تک کہ
پوری فلم نہ دیکھ لی جائے ۔

اب دور ہے سماجی ویب سائٹس ،کا اس نے نسلِ نو
میں مزید بگاڑ پیدا کر دیا ہے ، ہر لمحہ ’’آن لائن‘‘ رہنے کی خواہش میں
تعلیم کا نقصان،کھانا کھاتے وقت موبائلز،لیپ ٹاپس سامنے، توجہ کھانے کی
بجائے ان آلات پر ،محفل میں بیٹھے ہیں تو ایک دوسرے کی بات سننے کی بجائے
انہی کی جانب توجہ، الغرض کھانے پینے اور محفل میں بیٹھنے کے آداب رخصت
ہوئے ۔اس کے سبب نہ ہی بچوں میں کھلنے کا شوق رہا ہے نہ ہی کتب بینی کا
،اپنی روایات اجنبی ٹھہری ہیں، ادب ان کے لئے ایک انجان سی شے بن چکا
ہے اور تخلیقی صلاحیتیں ناپید ہیں ۔

کتب سے دوری کے سبب ہم اپنی اخلاقی قدروں ،ثقافتی رویات اور مذہبی
تعلیمات سے بے بہرہ ہیں ،اغیار کی تقلید میں ہر حد سے گزرنے کو تیار ہیں
،اپنے مذہبی تہوار اسی طرح مناتے ہیں جیسے مغرب میں ویلنٹائن ڈے منایا
جاتا ہے ۔

عید الفطراور عید الاضحی جیسے تہوار بھی جام و رقص کی محفلیں
سجا کر مناتے ہیں چہ جائیکہ ہم یہ کہیں کہ ہم ویلنٹائن ڈے مشرقی روایات
کے تحت منائیں گے۔ہمارے آئیڈیل اغیار ہیں ،ہماری داڑھی مونچھ کی وضع قطع
،لباس انہی جیسے ، ثقافتی تہوارہمارے مگر منانے کا طریقہ انہی کی تہذیب
کا عکاس ہے ۔

ہم اپنے ادبی ،ثقافتی اسلامی و تاریخی ورثے سے بے اعتنائی
برت کر ہر تہذیب ،ہر قوم کی تقلید کے لئے بے تاب ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ ہم
کوئی بھولی بسری،کنگال ،تاریخی پسِ منظر سے محروم خالی ہاتھ قوم ہیں جس
کے پاس اپنا کوئی نظریہ ،عقیدہ ،طریقِ حیات اورتہوار نہ ہے ۔

گزشتہ برس سے اب تک ہمارے درمیان سے بڑے بڑے ادیب ،شاعر ،ناول و ڈرامہ
نگار جا چکے ہیں ۔عبد اللہ حسین ،کمال احمد رضوی،اشتیاق احمد،جمیل
الدین عالی ،انتظار حسین اور آپا ثریا جیسی عظیم ادبی شخصیات رخصت ہو چلی
ہیں ۔شاید یہ سب ہستیاں اپنی نا قدری اور ہماری بے اعتنائی کو مزید
برداشت نہ کر سکتی تھیں ۔یہاں ایسے لوگوں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا جس کے
وہ مستحق ہوتے ہیں ،سرکاری سطح پر ان کی سرپرستی نہیں کی جاتی بلکہ بیشتر
اوقات انہیں پابندیاں سہنا پڑتی ہیں جبکہ قوم سماجی رابطوں کے ذرائع میں مدہوش
ہے ۔ان کی خدمات سے ہم منہ موڑے رکھتے ہیں جبکہ یہی لوگ ہماری
ثقافتی روایات کے نمائندہ ہوتے ہیں ،یہی ہماری تہذیب کودنیا
کے سامنے لاتے ہیں ۔

لگتا ہے کہ اب ادب اپنی بے ادبی سہہ نہیں پارہا ،وہ
ہماری بے اعتنائی پر نالاں ،بے رغبتی سے افسردہ اور بے حسی کے سبب ہم سے
روٹھ رہا ہے۔

ہمیں اپنے ان رویوں پر غور کرنا چاہئے اور سرکاری سطح پر
ادبی شخصیات کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے اور نسلِ نو میں ان کی تحریروں
کو پڑھنے کے لئے رغبت پیدا کرنی چاہئے تاکہ نوجوان اپنے ان عظیم لوگوں کی
قدر وقیمت کو پہچاننے کے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت ،تاریخ اور مذہبی
احکامات سے بھی روشناس ہو سکیں ۔ہر قوم ،ہر نئے فیشن کے پیچھے بھاگنے کی
بجائے اپنی روایات کو اپنانے میں فخر محسوس کرے اور اپنے تہواروں کو اپنی
روایات کے تحت ہی منائیں ۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے