سعید جدہ ائیر پورٹ پر بیٹھا ھوا اپنی فلائیٹ کا انتظار کر رھا تھا جبکہ اس کے ساتھ ھی اس کا ھم وطن دوسرا مصری حاجی بھی بیٹھا ھوا تھا ، جس کے چہرے سے آسودگی کی طراوت چھلک رھی تھی ، دونوں حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد وطن واپس جانے والے حاجیوں میں شامل تھے ، اچانک سعید کے ساتھ بیٹھے حاجی نے ایک لمبی سی سانس لی اور اپنا تعارف کرایا ،، میں بزنس مین ھوں اور الحمد للہ یہ میرا دسواں حج ھے ، اللہ پاک کا میرے اوپر بڑا فضل ھے اور میں سمجھتا ھوں کہ ھر حج کے بعد مجھے رب کے زیادہ قریب ھونے کا موقع ملا ھے ،، اس کے بعد اس نے استفسارانہ نظروں سے سعید کی طرف دیکھا گویا جواباً اس کے تعارف کا منتظر ھو ،، سعید مسکرا دیا اور بولا بھائی میرے حج کا قصہ کچھ زیادہ ھے طویل اورگنجلک ھے میں آپ کا سر کھانا نہیں چاھتا ،،، کوئی بات نہیں ایک تو ھم یہاں انتطار کے سوا کچھ کر نہیں رھے دوسرا یہاں کھانے کی ھر چیز باھر سے بیس گنا زیادہ مہنگی ھے ، بس ایک سر ھی تو کھانے کو فری میں ھے دوسرے حاجی عبدالباری نے ھنستے ھوا کہا ،،
سعید خیالوں میں کھو گیا گویا فیصلہ نہ کر پا رھا ھو کہ اپنی کہانی کو کہاں سے شروع کرے ،، میرے بھائی میں ایک پرائیویٹ اسپتال میں فزیوتھراپسٹ ھوں ،سعید نے آخرکار بولنا شروع کیا ،،میں نے 30 سال اپنی تنخواہ میں سے تھوڑی تھوڑی رقم کٹوا کر اس حج کی تیاری کی ھے ، اس سال میرے حج کے اخراجات پورے ھو گئے تھے جنہیں میں اسپتال کے فائنانس ڈیپارٹمنٹ سے لے کر نکلا ھی تھا کہ ایک خاتون کو دیکھا ،جس کا بیٹا ایکسیڈنٹ میں تقریباً معذور ھو گیا تھا ،مگر پچھلے چھ ماہ میں میری انتھک محنت اور پیار و شفقت کی وجہ سے وہ 50 فیصد ٹھیک ھو گیا تھا جبکہ امید تھی کہ مزید چھ ماہ کے بعد وہ مکمل صحتیاب ھو جائے گا ،، اس خاتون نے مجھے سلام کیا اور بجھے ھوئے لہجے میں بتایا کہ وہ لوگ اسپتال چھوڑ کر جا رھے ھیں ، ،، شاید پھر ھماری ملاقات نہ ھو لہذا میں آپ کو ڈھونڈ رھی تھی ، جس پر مجھے کافی اچھنبا ھوا- مجھے لگا جیسے وہ میرے علاج سے مطمئن نہ ھو ،، کیا آپ میرے طریقہ علاج سے مطمئن نہیں ھیں ؟ میں نے اس خاتون سے سوال کر ھی دیا ،، نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب ایسی بات نہیں ھے ،آپ نے تو بچے کو ڈاکٹر کی بجائے باپ بن کر سنبھالا ھے ،میرا تو رواں رواں آپ کو دعائیں دیتا ھے ، آپ نے میرے بچے میں نہ صرف جینے کی جوت جگا دی بلکہ اپنی ڈیوٹی سے ھٹ کر اس کو وزٹ کیا اور تحفے تحائف بھی دیئے جس کے لئے ھم میاں بیوی آپ کے بہت شکر گزار ھیں ،، پھر آپ اسپتال چھوڑ کر کیوں جا رھی ھیں ؟ میں نے حیرانی سے پوچھا ،، مگر وہ میری بات کا جواب دیئے بغیر مریض کے کمرے کی طرف چل دی ،،
میں سیدھا ایڈمن آفس کی طرف گیا اور بچے کا کمرہ نمبر بتا کر پوچھا کہ یہ لوگ اسپتال کیوں چھوڑ رھے ھیں ؟ وہ چھوڑ نہیں رھے بلکہ ان کو کمرہ خالی کرنے کا نوٹس دیا گیا ھے ،لڑکے کا والد جاب سے فارغ کر دیا گیا ھے جس کی وجہ سے وہ لوگ اسپتال کے چارجز دینے کے قابل نہیں ، لہذا ان کو کمرہ خالی کرنے کے لئے کہہ دیا گیا ھے ،، میں وھاں سے مینیجر صاحب کے آفس میں گیا اور ان سے درخواست کی کہ بچے کو علاج جاری رکھنے کی اجازت دی جائے مگر میری بات ابھی پوری بھی نہیں ھوئی تھی کہ مدیر نے نہایت رکھائی سے کہا کہ سعید یہ ایک پرائیویٹ اسپتال ھے کوئی چیریٹی ادارہ نہیں ھے ، یہاں وھی علاج کرا سکتا ھے جو اخراجات کی سکت رکھتا ھے ،، مدیر کا دوٹوک جواب سن کر جونہی میں مڑا تو میرا دائیاں ھاتھ میری جیب سے ٹکرایا جس میں میرے حج کے پیسے رکھے ھوئے تھے ،،
دفتر سے نکل کر میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا کہ” اے اللہ تو اچھی طرح جانتا ھے کہ مجھے تیرے گھر آنے کا کس قدر شوق ھے ، اور اب جبکہ میرا خواب ایک حقیقت بننے والا ھے تو اس بچے کی زندگی کا سوال کھڑا ھو گیا ھے ،، اے اللہ میں مجبور ھوں مگر تو بے نیاز ھے میں حج پہ نہ آ سکا تب بھی مجھے اپنے فضل سے محروم مت کرنا ، میں وھاں سے سیدھا اکاؤنٹنٹ آفس میں آیا اور اس بچے کے اگلے چھ ماہ کے اخراجات جمع کرا کر اس کے ڈسچارج آرڈرز کینسل کرا دیئے ،،،،،
الحمد للہ میرا دل سکون سے بھر گیا تھا مگر حج پہ نہ جا سکنے کی کسک اپنی جگہ تھی، ،،،،
پھر آپ نے جب اپنے حج کے اخراجات اس عورت کے بچے کے علاج کے لئے دے دیئے تو آپ حج پر کیسے آگئے ؟ عبدالباری نے بےچینی سے سوال کیا ،،
میں جب گھر آکر لیٹا تو حج کے مناسک کا ایک ایک منظر میری نظروں میں گھوم رھا تھا ،میں نے کئ بار بیت اللہ کا خیالی طواف کیا تھا – کئ بار لبیک اللھم لبیک کہتے مجمعے کے ساتھ اپنی آواز ملا کر ان کا حصہ بن گیا تھا ،، پتہ نہیں کب میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ھو گئے اور میں بہتے آنسوؤں کے ساتھ ھی سو گیا ،، میں نے دیکھا کہ میں بیت کا طواف کر رھا ھوں اور لوگ مجھے میرا نام لے لے کر حج کی قبولیت کی بشارتیں دے رھے ھیں ۔۔ حجاً مبروراً یا حاج سعید ،لقد حججت فی السماء قبل ان تحج فی الارض ، دعواتک لنا یا حاج سعید ،، اے سعید اللہ نے تیرا حج قبول کر لیا ،تو نے زمین سے پہلے آسمان پر حج کیا ھے ،ھمارے حج کی قبولیت کے لئے بھی دعا کرو ،،
اسی کیفیت میں فون کی گھنٹی نے مجھے جگا دیا – فون پر اسپتال کا مینجر تھا جو کہہ رھا تھا کہ اسپتال کا مالک حج پر جا رھا ھے ، وہ اپنے خاص معالج کے بغیر کبھی نہیں جاتا ، مگر اس دفعہ اس کے معالج کی بیوی شدید بیمار ھو گئ ھے جو بیوی کو اس حال مین چھوڑ کر باس کے ساتھ حج پہ نہیں جا سکتا ،لہذا آپ کو ان کے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ھے ، آپ اپنے ضروری کاغذات اسپتال کے ایڈمن آفس پہنچا دیں ،،،،،،،،،
میں نے سب سے پہلے تو شکرانے کے نفل ادا کیئے پھر کاغذات آفس والوں کے حوالے کیئے یوں اللہ پاک نے مجھے اپنے گھر بلانے کا انتظام کر دیا ،،حج کے بعد اسپتال کے مالک نے مجھے میری خدمات کا معاوضہ دینا چاھا تو میرے آنسو نکل پڑے اور میں نے اس کو بتایا کہ اس نے مجھے حج کرا کر مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ھے کہ مجھے اپنا خادم بنا لیا ھے ،لہذا میں نے جو بھی اس کی خدمت کی ھے وہ اس کے احسان کے مقابلے میں کچھ نہیں ھے لہذا وہ معاوضے کی بات کر کے مجھے گنہگار نہ کرے ،، پھر میں نے اس کو سارا واقعہ تفصیل کے ساتھ سنایا ،، جس پر اس نے مکے سے ھی فون کر کے اس بچے کے مکمل علاج تک اسے اسپتال میں بلا معاوضہ رکھنے کے احکامات جاری کر دیئے ، اس خاتون کے شوھر کو اپنی ایک فیکٹری میں سپروائزر کی پوسٹ پر رکھ لیا اور اسپتال انتظامیہ کو میرے سارے پیسے مجھے واپس کرنے کے لئے کہہ دیا ،، یوں اللہ پاک نے مجھے فری میں حج کرا دیا ،،،
عبدالباری کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ، اس نے اٹھ کر سعید کا ماتھا چوما اور اسے مبارک دی اور کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ میں نے دس حج کر کے اللہ پاک کا بہت قرب حاصل کیا ھے مگر آج مجھے لگتا ھے کہ میرے ایسے ھزار حج بھی تیرے اس ایک حج کے برابر نہیں ،میں تو خود حج پر آتا رھا جبکہ تجھے تو اللہ خود ھی اٹھا کر اپنے گھر لایا ھے ،، حاج سعید ، اللہ پاک سے میرے حج کی قبولیت کی دعا بھی کر دو ،، اللہ تمہارے حج میں برکت دے ،،