آزادی صحافت کے خالی کھوکھے

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی حکومت میں پاکستان کی صحافت نے جدید دور میں قدم رکھا ، پرائیویٹ نیوز چینل ، بڑے میڈیا گروپ ، نئے چینلوں کی بھرمار ہوئی ، ایف ایم ریڈیو ، سوشل میڈیا اوربہترین اخبارات و رسائل شروع ہوئے ، بہت چھوٹی اور محدود سی میڈیا کی مارکیٹ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہت بڑی انڈسٹری بن گئی ، پھر پرویز مشرف کی چند بڑی غلطیوں میں سے ایک غلطی یہ تھی کہ میڈیا کو خود آزادی دے کر اس کو پھر غلام بنانا چاہا جس سے میڈیا جیسا دوسرا ریاست کا ستون بھی پرویز مشرف کے خلاف ہو گیا عدلیہ پہلے ہی اس کے خلاف تھی اور یوں پرویز مشرف کو زوال آیا

اس کے بعد اس آزاد اور بے لگام میڈیا کا واسطہ پیپلزپارٹی سے پڑا ، پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پانچ سال پورے تو ہو گئے لیکن ان پانچ سالوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت روز ختم کرنے کے دعوے اور کوششیں بھی اس آزاد میڈیا کی رہیں ، اور یہ میڈیا پیپلزپارٹی کی حکومت تو ختم نہ کر سکا لیکن اس جماعت کو اس قدر پیچھے دھکیل دیا اور بدنام کر دیا کہ اس کے بعد پی پی سندھ تک محدود ہو گئی

یہ وہ ادوار تھے جہاں ہمارے ملک کا میڈیا کم از کم آزاد تصور کیا جاتا تھا ملک کے وزیر اعظم ، صدر ، وفاقی وزرائ ، اداروں کے سربراہوں سمیت ہر شخص ہر شخصیت ہر کنٹریکٹ ہر ڈیل ہر معاملے پر خبریں اور پروگرام چل سکتے تھے ، میڈیا ہی نے ملک کے اربوں ڈالروں کے پروجیکٹ کے کنٹریکٹ واپس دلوائے ، مسترد کراوائے ، میڈیا نے عدلیہ کے جھنڈے لہراتے ہوئے وزیر اعظم فارغ کرایا ، میڈیا نے وزرا کو جیلوں میں بھجوایا

اس تمام صورتحال کے بعد جب مسلم لیگ ن کی حکومت دو ہزار تیرہ میں آئی تو ون پوائنٹ ایجنڈا لے کر آئی ، گزشتہ کئی سالوں کے تجربے کے بعد ن لیگ نے ون پوائنٹ ایجنڈا لیا کہ اگر پاکستان میں باعزت حکومت کرنی ہے اور کرپشن بھی کرنی ہے اور سب کچھ ناجائز کرنا ہے لیکن خود کو بچانا ہے تو اس میڈیا کو کنٹرول کرنا ہو گا اس ون پوائنٹ ایجنڈا میں مسلم لیگ ن کی حکومت مکمل کامیاب ہوئی اور اس طرح پاکستان تحریک انصاف کے سو دن سے زائد کے دھرنے ، تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کی ہلاکتیں ، پشاور سانحہ ، آپریشن اور دیگر بڑے بڑے سانحات و حادثات کے باوجود نواز شریف حکومت کی گاڑی کو پہیہ چلتا رہا

[pullquote]میں اس وقت یہ دعوی کر رہا ہوں کہ پاکستان کا تمام میڈیا اخبارات ہوں یا ٹی وی چینل، نوے فیصد غلامی کی زندگی گزار رہا ہے یہ صرف دعوی نہیں ہے میں اس کو ثابت کر سکتا ہوں ، اس وقت صحافت کی آزادی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے جو کم از کم اس ن لیگ کے دور حکومت میں کبھی پورا نہیں ہو سکتا ، جس طرح ن لیگ ہمیشہ اس سے پہلے ادوار میں عدلیہ کی سہارا لیتی تھی اس مرتبہ پانچ سال پورے کرنے کے لیے عدلیہ سے زیادہ میڈیا پر انحصار کر رہی ہے
[/pullquote]

ہمارا میڈیا کیسے غلام ہے ، ملک میں اس وقت ہر کنٹریکٹ میں کرپشن ہو رہی ہے ہر تعیناتی میں کرپشن ہو رہی ہے لیکن براہ راست کسی بھی قسم کی خبر جس میں یہ تاثر بھی جائے کہ اس خبر سے وزیر اعظم نواز شریف یا وزیر اعلی شہباز شریف یا محترم اسحاق ڈار صاحب کی شان میں کوئی گستاخی کا امکان ہے تو وہ خبر نہ شائع ہوتی ہے نہ نشر ہوتی ہے بلکہ جو خبر دیتا ہے اس کو تنبیہ بھی کی جاتی ہے ، میں سمجھتا تھا کہ شاید کچھ خبریں جو معمول کی ہوتی ہیں وہ شاید لگ جائیں یا نشر ہو جائیں لیکن حیرانی ہوتی ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی خبر بھی نہیں چل پاتی ، کچھ ٹی وی چینل خود ساختہ طور پر حکومت کے خلاف خبریں چلانے کا عزم لے کر بیٹھے ہیں لیکن ان پر بھی دو چار ہفتوں سے زائد خبر نہیں چلتی ، آے آر وائی سے رئوف کلاسرا اور اسد کھرل کا پروگرام ختم کر دیا گیا یہ دو واحد پروگرام تھے جوحکومت کے خلاف سکینڈل اور خبریں لاتے تھے ان کی جگہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو لگا دیا گیا جس کی شہرت اور صحافت سے ہر شخص واقف ہے ، جنگ گروپ جو پاکستان کا سب سے بڑا گروپ ہونے کا دعویدار ہے اور صحافت کو یرغمال بنا کر رکھتے ہیں اس کے معروف تحقیقاتی رپورٹرز عالمی ایوارڈ یافتہ رپورٹرز انصار عباسی ، عمر چیمہ ، طارق بٹ ، احمد نورانی ، عثمان منظور اور دیگر کو زنگ لگ گیا ہے ، مجال ہے جو ان کی کوئی خبر حکومت کے خلاف شائع ہو ، یہ وہی رپورٹرز ہیں جن کی پیپلزپارٹی دور میں ایک ہی ایشو پر چھ سے سات خبریں روزانہ شائع ہوتی تھیں اور اب جنگ گروپ کی صحافت خاموش ہے ، دیگر میڈیا گروپ بے شک بڑے گروپ بن گئے ہ

یں لیکن وہ لکیر کے فقیر ہیں ایک ایشو اگر جنگ گروپ نے نہیں اٹھایا تو وہ ویسے ہی ڈرے ہوتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کوئی اور میڈیا گروپ اس کو اچھالتا ہے تو پھر ہم بھی شروع ہو جاتے ہیں

اس وقت میڈیا کی حالت یہ ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی خبر جیسے وزیر اعظم کی زیر صدارت انرجی اجلاس میں صرف شہباز شریف کو دعوت ، ایل این جی ٹھیکے میں بدعنوانی ، اسحاق ڈار کی غیر قانونی ڈیلیں ، معیشت کے زوال ، مٹئی کی تیل کی قیمت کے فارمولے کی تبدیلی سے اربوں کا منافع اور دیگر خبریں تک شائع اور نشر نہیں ہوتیں تو یہ کیسی آزاد صحافت ہے ۔۔۔

کارپوریٹ سیکٹر میں میڈیا کو ڈیل کرنے کے لیے بڑے ونگ بنائے جاتے ہیں لیکن وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے تیسرے فلور کو صرف اور صرف مریم نواز کی سربراہی میں بنے میڈیا ونگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے پچاس سے زائد میڈیا منیجر پہلے کام کر رہے تھے اور اب مزید ساٹھ کے قریب نئی تقرریاں کی گئی ہیں صرف اور صرف میڈیا کی مانیٹرنگ اور کنٹرول کے لیے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے