کہانی ایک شرمناک ڈکیتی کی

لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن کے ایک شادی ہال میں دعوت ولیمہ کی تقریب اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی۔ مہمان موقع کی مناسبت سے شادی کے بندھن میں بندھنے والے جوڑے کو مبارک باد دیتے ہوئے رخصت ہو رہے تھے۔ مہمانوں سے فراغت پا کر دلہن کو ایک گاڑی میں قریب ہی واقع اس کے گھر کی طرف روانہ کر دیا گیا جہاں پر کچھ دیر قیام کے بعد اُسے اپنے نئے گھر کو روانہ ہونا تھا۔ شادی ہال سے روانہ ہو کر جب یہ گاڑی شوق چوک کے قریب پہنچی تو چار مسلح ڈاکوؤں نے اسے اسلحہ کے زور پر روک لیا اور پھر وہ سین شروع ہو گیا جو ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں اب ایک معمول بن چکا ہے۔
ڈاکوؤں نے واردات کی فوری کامیابی کے لئے خواتین کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا تاکہ زیورات اور نقدی جلد از جلد حاصل کر لی جائے۔ اس مصروف چوک کے قرب و جوار میں پولیس ہمیشہ موجود ہوتی ہے، واردات کے بعد وہاں موجود لوگوں کا بھی کہنا تھا کہ تھوڑی دور پولیس کی گاڑی موجود تھی لیکن ممکن ہے کہ جائے واردات اُن کی نظروں سے اوجھل ہو۔ خیر ڈاکوؤں نے خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا اس کے نتیجے میں دُلہا کی بہن اچھی خاصی زخمی ہو گئی۔

اسی دوران معاملات ایک ڈرامائی کروٹ لیتے ہیں اور ٹریفک انسپکٹر حاجی زاہد مختار نظامی سرکاری گاڑی میں گشت کرتا ہوا اتفاقاً جائے واردات کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ یہاں پر ٹریفک رُکی ہوئی تھی دو گاڑیاں زاہد نظامی کی گاڑی سے آگے تھیں جبکہ اس سے اگلی گاڑی کی کھڑکیوں میں ڈاکوؤں نے اپنے سر گُھسیڑ رکھے تھے۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوتے ہی انسپیکٹر زاہد نے ڈاکووں پر گولی چلا دی جس کے جواب میں ڈاکووں نے بھی فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ شروع ہوئی تو بات کُھل گئی اور انسپکٹر نے جس گاڑی کی آڑ لے رکھی تھی اُس کا ڈرائیور اپنی گاڑی واپس موڑ کر بھاگ نکلا۔ ڈاکوؤں کے لئے یہ صورت حال یقیناًانتہائی غیر متوقع رہی ہو گی کہ راہ چلتے ٹریفک انسپکٹر نے انکے رنگ میں بھنگ ڈال دی۔ اس صورتحال کے قانونی پہلوؤں پر توماہرین ہی رائے دے سکتے ہیں کہ ایک سرکاری اہلکار جس کو صرف اور صرف ٹریفک کے بہاؤ کو منظم رکھنے کے لئے بھرتی کیا گیا ہے ، اپنے اس عمل پر وہ کس سلوک کا مستحق ہے، لیکن گولی چلنے سے یہ ہوا کہ ڈاکوؤں کو اپنی واردات ادھوری چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ یہ واقعہ 7 فروری کو ہمارے دوست طارق محمود احسن کی دعوت ولیمہ پر پیش آیا۔

طارق صاحب ماڈل ٹاؤن لائبریری کے منتظم اعلیٰ ہیں اور اسی علاقے میں تیسری مرتبہ ڈکیتی کا شکار ہوئے ہیں۔ چند برس ہوئے کہ ان کی اہلیہ سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر چل بسیں۔ دوبارہ گھر بسانے کا یہ خوشگوار موقع اس ناخوشگوار واقعہ سے بہت بری طرح سے متاثر ہوا۔ اس ناگوار صورتحال کا سب سے حوصلہ شکن پہلو یہ ہے کہ شہر کے بارونق علاقے میں راہزنی کی واردات ہوتی ہے اور لوگ وہاں پولیس کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ٹریفک انسپکٹر زاہد نظامی کا عمل یقیناً اُن تقاضوں کے عین مطابق ہے جو آج کے ملکی حالات ہم سے کرتے ہیں یعنی ہر شہری کو سپاہی بن کر زندگی بسر کرنی ہے۔ ایسے واقعات یقیناً ان نامساعد حالات میں اُمید جگاتے ہیں۔

مجھے یاد ہے جنوری 1978ء میں ایک مسلح نوجوان نے پی آئی اے کے ایک طیارے میں سوار 22مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس کا مطالبہ تھا کہ اسے یہ طیارہ بھارت لے جانے دیا جائے، جہاں وہ کینسر کا علاج کرانا چاہتا تھا۔ ہائی جیکر کا تو یہی کہنا تھا‘ حالانکہ بھارت کینسر کے علاج میں کوئی غیر معمولی شہرت نہیں رکھتا۔ اس وقت ایئر مارشل (ر) نور خان مرحوم پی آئی اے کے ایم ڈی تھے ۔ حالانکہ ان کے عہدے کے فرائض میں یہ بات شامل نہ تھی لیکن وہ بات چیت کے بہانے طیارے میں داخل ہوئے اور ہائی جیکر کو جا دبوچا۔ اس کے باوجود کہ ہائی جیکر کے پستول سے نکلنے والی گولی نے نور خان کو زخمی کر دیا لیکن وہ ہائی جیکر کو بے بس کرنے میں کامیاب ہوئے اور طیارے کے مسافروں کی زندگیاں محفوظ رہیں۔
پھر خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو کے گاؤں ابراہیم زئی کا اعتزاز حسن ہے جو ایک خودکُش بمبار کو اسکول میں داخل ہونے سے روکتے ہوئے اپنی جان قربان کر دیتا ہے اور اسکول میں موجود دوہزار طالب علموں کی زندگیاں محفوظ رہتی ہیں۔ یہ کام جو اعتزاز حسن نے کیا وہ کہاں اس کے فرائض میں شامل تھا۔

ٹریفک انسپکٹر زاہد نظامی اگر جائے واردات سے کترا کر گذر جاتا تو وہ حق بجانب تھا کیونکہ اس کے فرائض میں شامل نہیں کہ وہ ڈاکے اور راہزنی کی وارداتوں کو روکنے کے لئے کارروائی کرے لیکن اصل بات یہ ہے کہ احساس ذمہ داری کوئی وقتی احساس نہیں ہوتا۔ سکیورٹی کے اداروں میں جب کسی کو بھرتی کیا جاتا ہے تو پہلے اس کے اندر موجود خداداد صلاحیتوں کی جانچ کی جاتی ہے اور پھر تربیت کے ذریعے اس میں نظم و ضبط پیدا کیا جاتا ہے تاکہ وہ بروقت بہترین طریقے سے عمل کرنے کے قابل ہو جائے۔ ایک سپاہی ہر وقت ڈیوٹی پر ہوتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ عوام پر اپنے حکمرانوں کے طرز حکمرانی کی چھاپ بڑی گہری ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ ان کا مزاج بھی اپنے حکمرانوں جیسا ہو جاتا ہے۔ مشہور عربی مثل ہے کہ ’’ عوام اپنے حکمرانوں کے رستے پر ہوتے ہیں‘‘۔ تو ہمارے حکمرانوں کا رستہ کیا ہے؟ ان کے نزدیک لاہور کی ٹریفک درست کرنے کے لئے اسے سگنل فری شہر بنانا ہے۔ وہ کہتے ہیں لوگوں کو سگنل پر رُکنے اور چلنے کا پابند بنانے کے بجائے سگنل ہی ختم کر دیئے جائیں۔ حالانکہ ٹریفک سگنل محض ٹریفک سے متعلق کوئی آلہ نہیں ہوتا بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے جو لوگوں میں نظم و ضبط کا کلچر پیدا کرتا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ لاہور کی ٹریفک کیا لندن، برلن، پیرس اور ٹوکیو سے بھی بڑھ کر ہے۔ ان کے نزدیک کوئی قومی ادارہ خسارے میں چلا جائے تو اُس کو منافع بخش نہیں بنایا جا سکتا اور اُس کا واحد علاج یہ ہے کہ اسے بیچ دیا جائے حالانکہ ان کے اپنے کاروبار کبھی خسارے میں نہیں جاتے اور جو ادارہ یہ خود خرید لیں فوراً منافع دینے لگتا ہے۔جو حکومت اصلاح اور احیاء کی صلاحیت سے عاری ہو وہ کیا حکومت ہو گی۔

ہمارا کلچر اب یہ ہے کہ تمام تر ذہنی صلاحیتیں احساس ذمہ داری سے پہلوتہی کا جواز فراہم کرنے کے جھوٹے سچے استدلال تراشنے پر صرف ہو رہی ہیں۔ میرے ساتھ موبائل فون چھیننے کی ایک واردات ہوئی تو تھانے میں موجود ڈیوٹی آفیسر میرے صحافتی تعارف کے باعث اس بات پر منت سماجت کرنے لگا کہ موبائل چھینے جانے کی بجائے کھوجانے کی ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت دے دیں کیونکہ انسانوں کے اس جنگل میں اُس شخص کو ڈھونڈنا ممکن ہی نہیں اور موبائل چھیننا ڈکیتی کے زمرے میں آتا ہے، جس کے لئے اعلیٰ افسران کی طرف سے پوچھ گچھ ہوتی ہے، آگے آپ خود اندازہ کر لیں کہ کسی مضبوط تعارف کے بغیر جانے والوں کا کیا حال ہوتا ہو گا ۔ کسی ادارے کے قوانین و ضوابط کی تشریح اور تفہیم اگر فرائض سے پہلوتہی کے لئے برتی جانے لگے تو پھر باقی کیا رہ جائے گا۔ یہ بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ ملکی اداروں میں یہ روش بھی اوپر سے نیچے آتی ہے۔ اب اس بات میں کیا شک ہے کہ ریاست کا آئین صرف اور صرف مقتدر قوتوں اور ان کے منظور نظر طبقات کی خدمت پر مامور ہے۔ آئین کے صرف ان حصوں پر عملدرآمد کے لئے حساسیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جن کے ذریعے ان طبقات کے مفادات کو تحفظ ملتا ہے۔ آئین کی ان شقوں کی طرف کبھی کسی کا دھیان نہیں جاتا جو عام لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتی ہیں۔ عوام کی جان و مال عزت و آبرو کا تحفظ حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ان کے نزدیک ہماری پولیس کی کارکردگی کا معیار بھی یہ ہے کہ حکمرانوں کو انفرادی سطح پر پولیس کس قدر راضی اور مطمئن رکھنے میں کامیاب رہتی ہے۔

پنجاب کے حوالے سے سَن 2015 کے جرائم کے اعداد و شمار آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں۔ پنجاب جرائم کی تمام قسموں میں پورے ملک میں پہلے نمبر پر ہے۔ قتل کی وارداتوں میں پنجاب کا حصہ 44 % ، اجتماعی زیادتی کے واقعات 79% ، زیادتی 83% ، ڈکیتی 82% اور گاڑیاں چھیننے کی وارداتوں میں پنجاب کا حصہ 63% ہے اس کے باوجود یہاں کے کرتا دھرتا دوسرے صوبوں میں امن و امان کی صورت حال پر فکر سے دُبلے ہوئے جاتے ہیں۔ ڈکیتی کے اس واقعے کا ذکر اس لئے منظر عام پر آ گیا کہ میرے سامنے کی بات ہے۔ ہر روز بیسیوں ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہوتا، کیونکہ ہمارے ہاں ایک دوسرے کے عیب چھپانے کا کلچر اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ بہتری کے انتظار کے بجائے بہتری کے لئے جدوجہد ہی ہمیں بھنور سے نکال سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے